Monday 6 September 2021

Sarkar Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani

 

مختصر سوانح حیات

سرکار مخدوم اشرف سمنانی قد س سرہ النورانی

غوث العالم،محبوب یزدانی، تارک السلطنت، سلطان مخدوم میر اوحد الدین سید اشرف جہانگیر سمنانی سامانی نور بخشی رضی اللہ عنہ جو سلسلہ اشرفیہ کے بانی ہیں، 6 صدی ہجری کے چشتیہ سلسلہ کے مشہور و معروف بزرگ ہیں۔آپ کی علمی وروحانی شخصیت چہار دانگ عالم میں مشہور ومعروف ہے،آپ کی اخلاقی وعرفانی تعلیمات وارشادات کے عالم اسلام پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔آپ کامزار مبارک کچھوچھہ شریف زیارت گاہ خاص وعام ہے۔ہر سال ۲۵،۲۶،۲۷ محرم ا لحرام کوآپ کا عرس پاک کچھوچھہ شریف میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،جس میں لکھوں افراد شریک ہوتے ہیں۔آپ کی سیر ت طیبہ بہت ہی وسیع وعریض ہے،جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ذیل میں مختصر کچھ باتیں سپرد قلم کی جارہی ہیں۔

ولادت:  آپ ملک سمنان کے صوبہ خراسان کے دار السلطنت شہر سمنان میں سن 707ھ کو ایک بزرگ کامل اور سمنان کے بادشاہ سلطان سید ابراہیم علیہ الرحمہکے گھر پیدا ہوئے۔

نام و نسب:  آپ کا نام اشرف لقب جہانگیر اور محبوب یزدانی آپ 707 ہجری میں سمنان کے ریاست میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا نام سلطان سید ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ہے والدہ محترمہ کا نام خدیجہ بیگم ہے آپ کے والد گرامی ریاست سمنان کے بادشاہ تھے یہ قدیم شہر آج بھی ایران میں موجود ہے۔

حیرت انگیز قوت حافظہ: جب آپ کی عمر چار سال چار ماہ چار دن کی ہوئی تو بڑی دھوم دھام کے ساتھ رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی۔ آپ کی قوت حافظہ کا یہ عالم تھا کہ سات سال کی عمر میں قرآن شریف ساتوں قرائت کے ساتھ حفظ کر لیتے ہیں اس کے بعد مروجہ نصاب کے مطابق معقولات و منقولات کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر و حدیث فلسفہ و منطق حکمت و تصوف وغیرہ اپنے وقت کے تمام مروجہ علوم و فنون پر عبور ور دستگاہ حاصل کر کے ممتاز علماء کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور چودہ سال کی عمر میں فضیلت کی دستار بندی ہوتی ہے۔ ابھی حضرت سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ تحصیل علوم و فنون سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ آپ کے والد گرامی  سلطان حضرت سید ابراہیم علیہ الرحمہ کا انتقال ہوجاتا ہے اور پندرہ سال کی عمر میں سلطنت کی ذمہ داری کا بوجھ آپ پر آجاتا ہے آپ نے سلطنت میں بے مثال امن و امان قائم کیا اور لوگوں کو لوٹ مار چوری ڈکیتی اور ظلم و ستم سے محفوظ و مامون بنادیا دس سال تک عدل و انصاف اور جود و سخاوت کے ساتھ اچھی طرح حکومت کا کام انجام دیتے رہے لیکن اس کے باوجود آپ کے ظاہر و باطن پابند شریعت و طریقت ہی رہے۔

حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت اور عظیم منصب کی بشارت: جب آپ کی عمر پچیس سال کی ہوتی ہے آپ کی زندگی میں ایک عجیب انقلاب آتا ہے ایک عظیم منصب کی بشارت ملتی ہے اور وہ یہ کہ رمضان المبارک کی 27 تاریخ کی رات ہے رحمت و انوار کی بارش ہے حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور فرماتے اشرف! اگر منزل مقصود پہونچنا چاہتے ہو تو ہندوستان پہنچو۔ وہاں پر اللہ کا ایک دوست ہے وہی تیرا مرشد ہے گروہ عرفان ان کو شیخ علاء الحق گنج نبات اسعد لاہوری خالدی قد س سرہ کہتے ہیں طالب عشاق ان کو یوسف ثانی کہتے ہیں اور میں خضر ان کو خلق محمد کہتا ہوں۔ یہ کہہ کر حضرت خضر علیہ السلام غائب ہوجاتے ہیں جب صبح ہوتی ہے حضرت مخدوم اشرف  جہانگیر سمنانی قد س سرہ تخت و تاج سلطنت و حکومت اپنے چھوٹے بھائی محمد اعرف  نوربخشی  علیہ الرحمہ کو سپرد کر دیتے ہیں اور ترک سلطنت کرکے تحصیل آخرت کے لیے اجازت طلب کرتے ہیں اور سفر کرتے ہوئے خطۂ اوچ میں تشریف لاتے ہیں اور حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت  قد س سرہ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔حضرت بتاکید ارشاد فرما تے ہیں اشرف! دیر مت کرو جلدی سے ملک بنگال پہنچو۔ اس لیے کہ علاء الدین گنج نبات آپ کا انتظار فرما رہے ہیں۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ وہاں سے سیدھا دہلی پہنچتے ہیں۔یہاں پر ایک صاحب ولایت ارشاد فرماتے ہیں۔ اشرف خوش آمدید خبردار راستے میں کہی زیادہ دیر مت کرنا کہ برادر علاء الدین گنج نبات تمہارا انتظار فرما رہے ہیں۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ  دہلی سے روانہ ہوتے ہیں اور بہار کے قریب قصبہ سلاو میں پہنچتے ہیں اور چند دن قیام فرماکر عبادت و ریاضت کرتے ہیں جب آپ بہار چلے تو یہاں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری  قد س سرہ النورانی کی روح پرواز کرنے کا وقت تھا حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری  قد س سرہ النورانی اپنے اصحاب سے وصیت کرتے ہیں خبردار کوئی بھی میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے کیونکہ ایک سید صحیح النسب تارک سلطنت ساتوں قراء ت کا حافظ چودہ علوم و فنون کا۔عالم عنقریب یہاں آئے گا اور وہی میری نماز جنازہ پڑھائے گا مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری  قد س سرہ النورانی کا جنازہ تیار ہے۔ مریدین سارے لوگ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے ہیں جیسے ہی محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ النورانی خانقاہ میں نزول اجلال فرماتے ہیں حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری  قد س سرہ النورانی کی بتائی ہوئی نشانیوں کو پاکر سارے لوگ آپ کی دست بوسی کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اذان کے اصرار پر نماز جنازہ کی امامت فرماتے ہیں پھر تدفین کے بعد دل میں خیال پیدا ہوا کہ بہار ولایت بنگال میں شامل ہے شائد میرے مرشد یہی تھے جو انتقال فرماگئے،فورا جواب ملتا ہے فرزند تمہارے پیر ابھی زندہ سلامت ہیں۔

مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کا استقبال پنڈواشریف(مالدہ) بنگال میں : حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری  قد س سرہ النورانی  کے مزار پر انوارسے روانہ ہوتے ہیں اور سیدھے مقام جنت آباد پنڈواشریف بنگال کا رخ کرتے ہیں۔ ادھرپیرکامل مرشدبرحق حضرت علاء الحق پنڈوی  قد س سرہ النورانی بعد نمازچاشت خواب سے بیدار ہوتے ہیں اور بے تابانہ خانقاہ سے باہر نکلتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مجھے یار کی خوشبو آرہی ہے۔ اپنی سواری پالکی اور اپنے مرشد حضرت شیخ سراج الحق والدین  قد س سرہ النورانی کی پالکی جو آپ کو ملی تھی ہمراہ لے کر شہر سے باہر تشریف لاتے ہیں۔آپ اپنے مرشدکی پالکی پر سوار ہوتے ہیں اور اپنی پالکی خالی رکھتے ہیں۔المختصر یہ ہے کہ دونوں جانب سے جذبۂ محبت کا اثر ظاہر ہو تا ہے۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ  عنہ دور کر آتے ہیں اور مرشدحق کے قدموں پر سر رکھ دیتے ہیں اور محسن و مربی پیر کامل بھی اپنے قدموں سے اٹھاکر اپنے سینے سے لگالیتے ہیں۔ اس کے بعدفرماتے ہیں۔بیٹا اشرف! تم میری پالکی پر سوار ہو۔ حضرت مخدوم اشرف عاجزی سے عرض کرتے ہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ آقا سوار ہو اور غلام بھی سوار ہو۔ بعد اصرار حسب ارشاد مرشد حق کی پالکی پر سوار ہوتے ہیں جیسے ہی خانقاہ کے دروازے پر پہنچتے ہیں، مرشد کے آستانے کی چوکھٹ پر سر رکھ دیتے ہیں۔ مرشد بر حق کمال شفقت سے مرید خاص کو سینے سے لگا کر انوار و عرفان کی دولتوں سے ملامال کردیتے ہیں۔اس کے بعد خانقاہ کے اندر لے جاکر اپنے پاس بیٹھا کر اپنے ہاتھ سے کھانا کھلا تے ہیں اور ایک قسم کا  پان بھی کھلاتے ہیں۔

پھر مرید ہونے کا حکم دیتے ہیں  اس کے بعد اپنے سر کا تاج اتار کر اپنے ہاتھوں سے محبب یزدانی کے سرپر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے حجرے کے اندر لے جاکر چند منٹوں میں تمام اسرار و انوار سے سرفراز فرمادیتے ہیں۔ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ پنڈواشریف مالدہ بنگال میں تقریبا چھ سال تک پیر و مرشد کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک طے کرنے کے بعد پیر و مرشد کی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پنڈواشریف مالدہ بنگال سے روانہ ہوتے ہیں۔

وصال با کمال: 808 ہجری ہے آپ کی عمر سو سال ہو چکی ہے محرم کا مقدس مہینہ آتا ہے چاند دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس ماہ میں ہمارے جدامجد  سید الشہداء  حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہادت نصیب ہوئی تھی، اگر ہمیں بھی موفقت نصیب ہو تو بہت اچھا ہے۔ چنانچہ عاشورہ کے دن آپ کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اور محرم کی ستائیسویں تاریخ میں آپ فجر کی امامت نہ کر سکے۔دن میں اپنا سجادہ حضرت نورالعین پاک قد س سرہ کے حوالے کر تے ہیں اور کاغذات کے چند اوراق لے کر نصیحت لکھتے ہیں۔ اٹھائیس محرم کو تبرکات کا بقچہ منگاتے ہیں اور شیخ الاسلام حاجی الحرمین سید عبدالرزاق  نورالعین جیلانی قد س سرہ  کے حوالے کر تے ہیں اور کچھ یاد گار مریدین کو عنایت فرما دیتے ہیں۔ پھر لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں۔ظہر کی نماز میں حضرت نورالعین کو امام بناتے ہیں، بعد نماز شیخ سعدی علیہ الرحمہ  کے کچھ اشعار سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ آخر کار ندائے حق جو بنگال کی کھاڑی سے لے کر گجرات کے ساحل تک اور جنوبی ہند کی سطح سے لے کر ایران عراق حجاز تک گونج رہی تھی۔قانون قدرت کے تحت خاموش ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اللہ تعالی آپ کی تربت پر رحمت و انوار کی بارش فرمائے اور ہم سب کو مخدومی فیضان سے مالا مال فرمائے ۔

آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین ۔

                                                                                                                                                                                             ازقلم:  عبد الرشید امجدی دیناجپوری

 


Monday 17 April 2017

حضور سیدی و مرشدی اشرف الاولیاء حضرت سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ

حضور سیدی و مرشدی اشرف الاولیاء حضرت سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی رحمتہ اللہ علیہ
جب آتا ھے میرے دل میں خیال مجتبیٰ اشرف
نظر میں    رقص    کرتا     ھے       جمال      مجتبیٰ      اشرف
چمکتا    چاند    سا چہرہ     جبیں      رشک      قمر     جنکی
کوئی کس      طرح       لائے گا         مثال        مجتبیٰ      اشرف
چودھویں صدی کی ایک عبقری شخصیت خانوادہ اشرفیہ کے ایک چشم و چراغ، مرشد کامل،
حضرت اشرف الاولیاء سید بدرالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان ایک نظر۔
 آپ ایک عالم باعمل،صوفی باصفا،کامل مرشد ہدایت اور رہنمائے طریقت تھے، آپ کی ذات تنہا ایک انجمن تھی، آپکا وجودنہ جانے کتنی انجمنوں کے لئے شمع فروزاں، نہ جانے کتنے جسم کے مریضوں نے آپ سے دوائے شفا پائی، آپ فیوض و بر کات کے سر چشمہ تھے۔

ولادت باسعادت
26 ربیع الآخر 1346ھ مطابق 23 اکتوبر 1927ء کو علم و عرفان والے گھرانے میں کچھوچھہ مقدسہ میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی، جس دن آپ کی ولادت پاک ہوئی اسی روز موضع پھلام، سمری بختیار پور، سہرسہ (بہار) میں سنی دیوبندی مناظرہ میں مسلسل تین روز مناظرہ کے بعد دیوبندیوں کو شکست فاش اور اہل سنت والجماعت کو فتح مبین ملی تھی۔
جب آپ کے والد گرامی حضور تاج الاصفیاء اور حضور محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہما فتح کا پرچم لہراتے ہوئے کچھوچھہ شریف پہونچے اور سلطان المناظرین بحرالعلوم حضرت علامہ  سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کو فتح کی خوشخبری سنائی تو آپ نےفرمایا "اسی تاریخ کو آپ کے یہاں شہزادے تشریف لائے ہیں اور کامیابی کا چاند طلوع ہوا ہے" اور پھر حضور سلطان المناظرین علیہ الرحمہ نےاپنے بھتیجے کو گود میں لیکر برجستہ فرمایا "یہ میرا ہمشکل ہے، اسکی آمد سعید ہےاور مجھے لگتا ہے کہ اسکی ولادت کی برکت ہے کہ مناظرہ میں اہلسنت والجماعت کو فتح مبین حاصل ہوئی ہے" پھرآپ نے حضوراشرف الاولیاء رحمتہ اللہ علیہ کاتاریخی نام "بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ" تجویز فرمایا جسکے اعداد "1346" نکلتے ہیں۔
آپکے نام میں "بدرالفتح" اسی مناظرہ پہلانا م میں فتح وکامیابی کی مناسبت سے ہے۔
"بدرالفتح سیدمحمد مجتبیٰ" کے ساتھ "اشرف" کے لگانے سے آپکے تاریخی نام کی مطابقت سن ہجری کےساتھہ ساتھہ سن عیسوی سے بھی ہو تی ہے "بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف" کے اعداد 1927 ہیں اور اسی سن عیسوی میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی. سبحان اللہ.
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچتا ہے جس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے.
µ  اشرف الاولیاء سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی
µ  بن سید مصطفیٰ اشرف
µ  بن سید محمد علی حسین المعروف بہ اشرفی میاں
µ  بن سید سعادت علی
µ  بن سید قلندر علی
µ  بن سید تراب علی
µ  بن سید نواز اشرف
µ  بن سید محمد غوث
µ  بن سید جمال الدین
µ  بن سید عزیزالرحمان
µ  بن سید محمد عثمان
µ  بن سید ابو الفتح زندہ پیر
µ  بن سید محمد اشرف
µ  بن سید محمد حسن اشرف
µ  بن سید عبدالرزاق نورالعین
µ  بن سید عبدالغفور حسن
µ  بن سید ابو العباس احمد
µ  بن سید بدرالدین حسن
µ  بن سید علاء الدین
µ  بن سید شمس الدین
µ  بن سید سیف الدین
µ  بن سید ظہیرالدین  
µ  بن سید ابو نصر
µ  بن سید ابوصالح عمادالدین
µ  بن سید ابوبکر عبدالرزاق
µ  بن سید محی الدین عبدالقادر جیلانی
µ  بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست
µ  بن سید ابو عبداللہ
µ  بن سید یحییٰ زاہد
µ  بن سید محمد
µ  بن سید ابو داؤد
µ  بن سید موسیٰ ثانی
µ  بن سید عبد اللہ ثانی
µ  بن سید موسیٰ
µ  بن سید عبد اللہ محض
µ  بن سید حسن مثنیٰ
µ  بن سید حسن مجتبیٰ
µ  سیدہ فاطمۃ الزہرا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
µ  آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
حضور اشرف الاولیاء حضرت سید ابوالفتح مجتبی اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہونچتا ہے جس کا اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے.
µ  اشرف الاولیاء سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی
µ  بن سید مصطفیٰ اشرف
µ  بن سید محمد علی حسین المعروف بہ اشرفی میاں
µ  بن سید سعادت علی
µ  بن سید قلندر علی
µ  بن سید تراب علی
µ  بن سید نواز اشرف
µ  بن سید محمد غوث
µ  بن سید جمال الدین
µ  بن سید عزیزالرحمان
µ  بن سید محمد عثمان
µ  بن سید ابو الفتح زندہ پیر
µ  بن سید محمد اشرف
µ  بن سید محمد حسن اشرف
µ  بن سید عبدالرزاق نورالعین
µ  بن سید عبدالغفور حسن
µ  بن سید ابو العباس احمد
µ  بن سید بدرالدین حسن
µ  بن سید علاء الدین
µ  بن سید شمس الدین
µ  بن سید سیف الدین
µ  بن سید ظہیرالدین
µ  بن سید ابو نصر
µ  بن سید ابوصالح عمادالدین
µ  بن سید ابوبکر عبدالرزاق
µ  بن سید محی الدین عبدالقادر جیلانی
µ  بن سید ابو صالح موسیٰ جنگی دوست
µ  بن سید ابو عبداللہ
µ  بن سید یحییٰ زاہد
µ  بن سید محمد
µ  بن سید ابو داؤد
µ  بن سید موسیٰ ثانی
µ  بن سید عبد اللہ ثانی
µ  بن سید موسیٰ
µ  بن سید عبد اللہ محض
µ  بن سید حسن مثنیٰ
µ  بن سید حسن مجتبیٰ
µ  سیدہ فاطمۃ الزہرا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
µ  آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
   
           حلیہ مبارک
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کا نقش سراپا یہ ہے۔وجیہ وشکیل دراز قد، سینکڑوں میں ممتاز و نمایاں، رنگ گورا، سر بڑا گول، بال سیاہ، چہرہ گول روشن وتابناک نور برستا ہوا، جسے دیکھ کر خدا یاد آجائے، پیشانی روشن کشادہ جس پر سعادت کے آثار نمایاں، پلکیں گھنیں بالکل سفید ہالہ نما، آنکھیں بڑی بڑی خوبصورت، ہونٹ پتلے پتلے گلابی رنگ لئے ہوئے، دندان مبارک چھوٹے چھوٹے ہموار، صاف و شفاف، ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی، کان متناسب، ریش مبارک مشروع گھنی اور گول، رخسار آفتابی، چہرے پر رعب و جلال، گردن معتدل، سینہ مبارک صاف اور فراخ، دستہائے مبارک نرم و نازک لمبے لمبے سخاوت و فیاضی میں ضرب المثل، کلائیاں چوڑیں، ہتھیلیاں بھری ہوئیں نرم وگداز، گفتگو متوسط آواز، آواز شیریں، رفتار صوفیانہ، لباس و وضع میں سادگی، سر پر خاندانی کلاہ اور کبھی مخصوص تاج خاندانی۔۔۔  مجدد دین و ملت اعلیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
یا رسول اللہ ﷺ

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

         تعلیم و تربیت
جب حضور اشرف الاولیاء حضرت ابوالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان کی عمر 4 سال 4 ماہ 4 دن کی ہوئی تو حسب دستور خاندانی آپکے والد ماجدتاج الاصفیا حضرت سید مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے کچھوچھہ مقدسہ میں قائم "مدرسہ اشرفیہ" میں آپکا داخلہ کر وایا۔
بعدہ حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ نے اعلیٰ تعلیم کے لئے مبارک پور یو پی کا رخت سفر باندھا اور وہاں باغ فردوس الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جس کی سنگ بنیاد آپ کے جد امجد ہم شبیہ غوث اعظم اعلیٰحضرت سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے رکھی تھی اور تا حیات آپ اس کے سر براہ اعلیٰ رہے، اور آ ج بھی وہاں انکا فیض جاری ہے۔
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ خانوادہ اشرفیہ کے پہلے فرد تھے جنہوں نے الجامعۃ الاشرفیہ میں داخلہ لیا جب یہ خبر جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کو ہوئی تو آپ نے پورے مبارک پور میں یہ منادی کرادی کہ "اے مبارک پور کے لوگو تم خوش نصیب ہوتمہاری  قسمت کا ستارہ عروج پر ہے کہ تمہارے یہاں نبیرہ اعلیٰحضرت بدرالفتح سید محمد مجتبیٰ اشرف تعلیم حاصل کر نے کے لئے تشریف لا رہے ہیں، چلو اپنے مخدوم زادے کے استقبال کے لئے چلو اور اپنے محسن و کرم فر ما کے پوتے کا شایان شان استقبال کرو، چلو سٹھیاؤں اسٹیشن سے مخدوم زادے کو لیکر آئینگے"،
آپ کے ایک اعلان پہ سارا مبارک پور اکٹھا ہوکر سٹھیاؤں اسٹیشن استقبال کے لئے پہونچا، شوق دید میں سبھی بے چین ہو نے لگے، تاریخ نے ایسا پہلی بار دیکھا تھاکہ استاذالعلماء حافظ ملت علیہ الرحمہ جیسی جلیل القدر شخصیت اپنے شاگرد (خاص) کے استقبال کے لئے خود تشریف لے گئے تھےاور کیوں نہ ہو تاریخ اپنے آپ کو دُہرا رہی تھی کہ ان کے جد امجد غوث العالم محبوب یزدانی حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمتہ والرضوان کے استقبال کیلئے بھی ان کے پیر و مرشد قطب عالم پنڈوہ حضور مخدوم علاء الحق والدین علیہ الرحمتہ والرضوان آبادی سے باہر نکلے تھے۔
جب حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ ٹرین سے اترے تو پورا خطہ آل رسول اور فیضان مخدوم سمناں کے نعروں سے گونج اٹھا، دست بوسی اور قدمبوسی کے لئے منتظرین پروانوں کی طرح ٹوٹ پڑے سب سے پہلے حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ آپ سے بغل گیر ہوئے اور آپ کو سینے سے لگایا،
الجامعتہ الاشرفیہ میں آپ نے اپنےوقت کے جلیل القدر اساتذہ کی تربیت میں مروجہ تمام علوم و فن میں مہارت حاصل کی۔

 آپ کے جلیل القدر اساتذہ کرام:
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ
مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی
مولانا عبد المصطفی ازہری
مولانا عبد الرؤف بلیاوی
مولانا سلیمان اشرف بھاگلپوری
مولانا شمس الحق
مولانا علی احمد
رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
      ایّام طفولیت میں نبی کونین سلطان دارین صلی اللہ علیہ وسلّم، محبوب سبحانی حضور غوث الاعظم دستگیر، حضور خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز اور محبوب یزدانی حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین) کی زیارت پاک سے مشرف ہونا۔
حضور اشرف الاولیاء حضرت سید ابوالفتح محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کے بچپن اورلڑکپن کا زمانہ تھا، آپ کے جد امجد حضور اعلی حضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ کی طبیعت سخت علیل تھی، مسلسل علالت کی وجہ سے آپ میں اٹھ کر بیٹھنے کی سکت بھی نہ تھی، خانوادہ کے سبھی لوگ عیادت اور تیمارداری میں مصروف تھے، چھوٹے چھوٹے بچے دادا جان کو مرض میں مبتلا دیکھ کر خدمت میں لگے ہوۓ تھے، جن میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ بھی تھے، اتنے میں آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی، اورعوام وخاص سبھوں کو فورا حجرہ خالی کرنے کا حکم دیا، حکم سنتے ہی سبھی حجرے سے باہر ہو گئے، لیکن حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ جہاں تھے وہیں رہے، دادا جان رحمتہ اللہ علیہ نے دوبارہ آپ کو مخاطب کیا اور باہر جانے کا حکم دیا تو آپ مچل گئے اور عرض کرنے لگے "میں یہیں رہونگا اس حالت میں آپ کو چھوڑ کر با ہر ہرگز نہ جاؤنگا"۔
اپنے نو عمر پوتے کی زبان سے یہ محبّت اور دَرد بھرا جُملہ سُن کر آپ کو رحم آگیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا : "اگر باہر جانا نہیں چاہتے ہو تو میری چارپائی کے نیچے چھپ جاؤ"،
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے اور غور سے دیکھنے لگے کہ آخر آج خلاف معمول ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
جب تنہائی ہو گئی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھا کچھ با رونق شخصیتیں ظاہرہوئیں جن کی آمد پر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اپنے بستر علالت سے اٹھ کر از خود کھڑے ہوگئے، اور آنے والوں کی نہایت ہی مؤدب انداز میں تعظیم وتوقیر بجا لاۓ، پھر اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ اور آنے والے معزز حضرات کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہوا جو بہت دیر تک جاری رہا، اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمہ عربی زبان میں گفتگو کر رہے تھے، پھر اچانک وہ مکرم شخصیتیں غائب ہوگئیں اور آپ آنسوؤں کے ساتھ اپنے بستر علالت پر لیٹ گئے-
جب یہ پُربہار وپُرنور سَماں ختم ہوا تو جد امجد علیہ الرحمہ نے آپ کو باہر نکلنے کی اجازت دی۔
تب آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دادا جان سے عرض کی: "حضور آپ میں تو کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی، آخر یہ بزرگ کون تھے جن کی تعظیم کے لئے آپ کھڑے ہوگئے اورکافی دیر تک ان سے عربی زبان میں بات چیت کی" تو دادا جان رحمتہ اللہ علیہ نے آپ سے فرمایا: "چپ رہو، چپ رہو، ابھی ابھی جن بزرگوں کو تم نے دیکھا ہے ان میں حضور پر نور شافع یوم النشور سید عالم روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلّم، محبوب سبحانی حضور غوث الاعظم دستگیر، حضور خواجہ خواجگان  خواجہ غریب نواز و حضور محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تشریف لاۓ تھے،
بھلا ان کی آمد پر میں اپنے بستر پر کیسے لیٹا رہتا۔ دیکھو! میری زندگی میں اس واقعہ کو کسی سے بیان مت کرنا ورنہ گونگے ہوجاؤگے۔
اس طرح حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ سرکار دو عالم روحی فداہ صلی اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ ساتھ ان بزرگان دین کی زیارت سے بھی مشرّف ہوئے اور جد امجد حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد اس واقعہ کو اپنے اہل خاندان اور مرید و متوسلین سے بیان فرمایا- سننے والوں کا بیان ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی حیات ظاہری میں گاہ بگاہ اس واقعہ کو بیان فرماتے اور جب بھی اس واقعہ کو بیان فرماتے، بیان کرتے ہوئے اشک بار ہو جاتے،سبحان اللہ!
شریعت میں طریقت میں سخاوت میں شجاعت میں
کوئی  ثانی    نہیں    ملتا     ہمارے    پیرو مرشد کا

بیعت و خلافت
حضور اشرف الاولیاء حضرت ابوالفتح  سید محمد مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان جب سن بلوغ کو پہونچے تو آپ کے باطنی کمالات اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے آپ کو اسی وقت آپ کے جد امجد حضور مخدوم الاولیاء ہمشبیہ غوث الاعظم اعلیٰ حضرت علی حسین المعروف اعلیٰحضرت اشرفی میاں علیہ الرحمتہ والرضوان نے سلسلہ عالیہ قادریہ چشتیہ نقشبندیہ اشرفیہ میں آپ کو بیعت کیا اور اجازت و خلافت عطا فرمائی،
پھر حسب روایات خاندانی ودستور خانقاہی اپنے والد ماجد مخدوم المشائخ تاج الاصفیاء حضرت علامہ سید شاہ پیر مصطفیٰ اشرف اشرفی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے تمام سلاسل حقہ ماذونہ خصوصا سلاسل اربعہ مشہورہ کی اجازت وخلافت مع تاج و جبہ مرحمت فرمائی اور جملہ اوراد و وظائف اور اعمال خاندانی خصوصاً دعائے حیدری، دعائے سیفی، دعائے بشمخ، دعائے الف اور حزب البحر وغیرہ کی اجازت مرحمت فرمائی اور آپ کو اپنا جانشیں قائم مقام ولی عہد نامزد فرمایا-
تبلیغ و اشاعت
دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں مسند درس وتدریس پر رونق افروز تھے مگر ابھی سال بھی پورا نہ ہو پایا تھا کہ والد محترم، حضور تاج الاصفیاء علیہ الرحمہ کے مشاغل و مصروفیات اور کارہاۓ تبلیغ کی وسعتوں کے مد نظر تدریسی خدمات سے آپ کو علاحدگی اختیار کرنی پڑی اور تبلیغی خدمات کی جانب زمام زندگی کو موڑنا پڑا۔
جماعت اہلسنت کی تبلیغ واشاعت اور اپنے والد گرامی کے مشن کے فروغ میں مصروف ہو گئے، دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلّم کی نشر و اشاعت اور مسلک اہلسنت و جماعت کے فروغ وارتقاء کے لئے ایشیا و یوروپ کے مختلف ممالک اور ہندوستان کے مختلف صوبوں کا آپ نے دورہ کیا، یوں تو آپ کا فیضان پوری ملّت اسلامیہ کے لئے عام تھا لیکن بنگال، بہار، اڑیسہ، آسام، گجرات، یوپی، ایم پی، مہاراشٹر، راجستھان، پنجاب، کرناٹک، آندھراپردیش، بھوٹان، سکّم اور بیرون ہند بنگلہ دیش، پاکستان، سعودیہ، انگلینڈ وغیرہ کے مسلمان آپ سے زیادہ فیضیاب ہوئے۔

کہیں دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلّم کی حفاظت کیلئے مدرسے قائم کئے- کہیں اپنے معبود حقیقی کے آگے سر بسجود ہونے اوراظہار بندگی کیلئے مسجدوں کی تعمیر فرمائی کہیں تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس کیلئے خانقاہوں کی تعمیر کی،اور اگر کہیں دین اسلام اور مذھب اہل سنت و جماعت کو کسی نے اپنے اعتراضات کا نشانہ بنایا اور انگشت نمائی کی تو ان سے مقابلہ کر کے دشمنان دین کو خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
جس سے ہزارہا لوگ اپنے باطل عقائد اور غلط نظریات سے تائب ہوکر اہل حق کے جھرمٹ میں آگئے-
حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کے تبلیغی دورے کا خاص مقصد مسلک اہلسنّت و جماعت کی نشر واشاعت اور مخدومی مشن کا فروغ و ارتقاء تھا- ہندوستان کے مختلف صوبے بالخصوص صوبہ بنگال و بہار، بھوٹان و سکم اورآسام میں آج جو سنیت کی چہل پہل نظر آرہی ہے اور مسلک اہلسنّت و جماعت کے فلک شگاف نعرے بلند ہو رہے ہیں اس میں حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کی قربانیوں کا زیادہ حصّہ شامل ہے- بیل گاڑی، رکشا، وین اور پیدل چل کر مسلسل دیہاتوں کا سفر کر کے گاؤں گاؤں، قریہ قریہ پہنچ کر دین و سنیت کیلئے جو قربانی آپ نے پیش کی ہے وہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔
آپ نے اپنی تبلیغ کے ذریعہ بہت سے بد عقیدوں کو سنی صحیح العقیدہ بنایا دین سے بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں دین اسلام کی شمع فروزاں کی اور بعض وہ مساجد و مدارس جو برسوں سے بد مذہبوں کے تسلّط میں تھے، اپنی کوشش اور حکمت عملی سے سنیوں کے حوالے کیا-