Saturday, 3 October 2015

The Books of Sultan Makhdoom Ashraf Jahangir Simnani

ایک شبہ کا ازالہ
حاجی الحرمین الشریفین  مخدوم الآفاق سید عبدا لرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی  7 ذی الحجہ                      872؁ ہجری میں وصال فرمایا ۔ معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سید عبدالرزاق نورالعین نے اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادگان کو تبرک اور مختلف علاقوں کی ولایت عطافرمادی تھی اور ان کے لئے مقام تجویز کردیئے تھے تاکہ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرسکیں،چنانچہ بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن کو اپنا جانشین بنایا اور ولایت کچھوچھہ عطا کیا دوسرے صاحبزادے سید شاہ حسین کو ولایت جونپور عطا کی تیسرے صاحبزادے سید شاہ احمد کو ولایت جائس رائے بریلی اور چوتھے صاحبزادے سید شاہ فرید کو ولایت بارہ بنکی عطا کی اس طرح آپ نے تمام صاحبزادگان کو علاقے عطافرمائے لیکن اپنا جانشین سید شاہ حسن کو ہی بنایا ۔ہماری اس بات کی حیات محدث اعظم ہند کے مصنف کی اس تحریر سے ہوتی ہے وہ  لکھتے ہیں :
"حضرت نورالعین پاک نے ہر وجہہ اور ہر لحاظ سے اکبریت حسن کا خاص خیال کھتے ہوئے اپناقائم مقام خلیفہ اور سجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر کو بنایا اور خدمت آستانہ و جاروب کشی بھی ان کے سپرد فرمائی جیساکہ مولانا صالح رودولوی خلیفہ سید شاہ کرم اللہ اشرف جائسی اپنے رسالہ"خلافت نامہ اشرفیہ" میں تحریر کرتے ہیں " چنانچہ حضرت نورالعین وقت وفات خدمت جاروب کشی بخلف اکبر سپردند وسید حسین رابجون پوروسید احمد رابجائس وسید فرید رابردولی فرستادہ وصیت بجاآورند" اس بیان سے یہ حقیقت رونما ہوگئی کہ حضرت حاجی الحرمین الشریفین شیخ الاسلام والمسلمین سید عبدا لرزاق نورالعین کی وفات کے بعد درگاہ کچھوچھہ شریف کے تنہا واحد حقیقی اصلی اور جائزسجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں تھےسید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں کے عہد سجادگی میں ان کے چھوٹے بھا ئی سید شاہ حسین ایک عرصے کے بعد ولایت جونپور سے درگاہ کچھوچھہ شریف بغرض چلہ کشی پہنچےاور پھر مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایاولایت جونپور چھوڑنے کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ"چوں بست ودومواضع ازبعض معتقدین بفتوح دارندحصہ سید حسین خلف ثانی نیز درآن قراریافت بدیں وجہہ تعلق سکونت کچھوچھہ اختیارکردند"۔   (بحوالہ:  خلافت نامہ اشرفیہ)
بہرحال ! سید شاہ حسین ثانی جب کچھوچھہ شریف پہونچے تو بڑے بھائی کی محبت و شفقت نے انہیں پناہ دی اور مستقل رہنے کی اجازت بھی ان کی بے نفسی وسیع القلبی اور والہانہ تعلق خاطر کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ خود تمام حقوق رکھنے کے باوجود تنہامراسم عرس اداکریں اور چھوٹے بھائی کے نام کا چراغ روشن نہ ہو لہذا انہوں نے بکمال اخلاص و محبت اپنے چھوٹے بھائی سید شاہ حسین کو 27محرم الحرام کی تاریخ برائے ادائیگی مراسم عرس مرحمت فرمائی اور اپنے لئے 28 محرم الحرام یعنی عرس حضرت مخدوم صاحب کی خاص تاریخ محفوظ رکھی اس طرح سید شاہ حسین خلف ثانی کو سید شاہ حسن  خلف اکبر سرکار کلاں کے بخشندہ یا مرحمت کردہ حقوق سجادہ نشینی حدوددرگاہ کچھوچھہ شریف ملے ورنہ نورالعین نے انہیں ولایت جونپور کا سجادہ نشین نامزد فرمایا تھا۔                   (حیات محدث اعظم ہندصفحہ 13)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام والمسلمین مخدوم الآفاق حاجی الحرمین الشریفین سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن ہی درگاہ کچھوچھہ شریف  کے سجادہ نشین تھے لیکن جب ان کےچھوٹے بھائی سید شاہ حسین ولایت جونپور چھوڑکر کچھوچھہ شریف آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جگہ دی بلکہ مراسم عرس بھی تقسیم کرلیں چنانچہ 27 محرم الحرام کو سید شاہ حسین درگاہ شریف میں مراسم عرس ادا کرتے ہیں اور اصل تاریخ یعنی 28 محرم الحرام کو سید شاہ حسن جو درگاہ شریف کے سجادہ نشین تھے مراسم عرس ادا فرماتے تھے۔
             بہرحال رسالؔہ قبریہ اور بشاؔرۃ المریدین  جس میں حالات نزول ملائکہ اور اظہار اپنے عقائد حقہ اور بشارت عالم غیب تحریر فرمایااور علم اصول میں فصوؔل اشرفی لکھی ۔ ایک جلد مکتوباؔت اشرفی آپ کے صاحب سجادہ حضرت نورالعین نے جمع کیا ۔ ایک جلد رقعاتؔ اشرفی جس کو حضرت مولانا شیخ دریتیم نے جمع کیا تھا ۔ اس میں مختصر رقعات حضرت محبوب یزدانی درج  کئے ہیں اور دیوان ؔاشرف ایک مبسوط کتاب منظوم ہے جس کو اہل زمانہ مثل دیوان حافظ لسان الغیب مانتے ہیں۔          (بحوالہ:صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ118)
حضرت نورالعین نے فرمایا کہ جس وقت امیر تیمور گورکانی ، حضرت محبوب یزدانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ تقتمش خاں پر فوج کشی کرنا چاہتا ہوں حضور فال نیک دیکھ کر بتلائیے۔ حضرت کے سامنے آپ کا دیوان رکھا ہوا تھا اس میں جو فال دیکھی یہ شعر برآمد ہوا۔
از  آیت   و   حدیث  دو قرن  اند بیقراں
اے بادشاہ کو ش کہ صاحب قران شوی
لقب صاحب قرانی  امیر تیمور کو حضور کے دیوان کے فال سے عطا ہوا ۔ بعد ملاحظہ فال امیر صاحب قراں کے حضرت محبوب یزدانی دست دعا ہوئے اور فاتحہ پڑھا۔ چنانچہ آپ کی دعا کے برکت سے سلطان صاحب قران نے غنیم پر نصرت و فتح پائی ۔
غوث العالم محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی نے  ارشاد فرمایا:
میرے خاندان کی عظمت اور شان بلند ہے یہاں سے تصور کرنا چاہیے کہ سلطان محمود غزنوی جیسے بادشاہ ہمارے بزرگوں کے غلام زادوں نے سلطنت اور بادشاہت کی ہے۔ (حوالہ: اشرف الفوائد)
آپ  اپنے مکتوبات اشرفی  میں تحریر فرما تے ہیں کہ میرے جد امجد حضرت سید شمس الدین محمود نوربخشی قدس سرہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی اوشی چشتی قدس سرہ کے زمانہ میں ہندوستان کی سیر کو تشریف لائے اور سلطان شمس الدین التمش کے گھر مہمان ہوئے سلطان موصوف جو قطب صاحب کے مرید اور خلیفہ تھے ۔ ان سے تعریف کی کہ میرے گھر ایک مہمان سید عالی خاندان ملک ایران کے رہنے والے تشریف لائے ہیں وہ مرتبہ ولایت میں نقباء کے درجہ کو پہونچے ہوئے ہیں ۔
حضرت قطب الدین بختیارکاکی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ایسے مہمان عظیم الشان کو تم نے اپنے گھر میں ٹھہرالیا ان کو ہمارے گھر ٹھہرنا چائیے تھا ۔ میں تو ان کو خواجگان چشت سے سمجھتا ہوں۔ دوسرے دن سید شمس الدین محمود حضرت قطب صاحب کے گھر مہمان ہوئے حضرت قطب صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو خوش خبری سناتا ہوں کہ آپ کی ذریت میں ایک غوث جہانگیر پیدا ہوں گے اور وہ میرے سلسلے کو جاری کریں گے اور خطہ یوض جس کو اودھ کہتے ہیں ۔ اس میں پچھم حدودقصبہ جائس اور سترک سے لے کر پورب دریائے کوسی تک اسی درمیان میں ان کا ظہور کامل ہوگا اور رسالہ غوثیہ میں حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند خواجہ معین الدین ولی الہند چشتی اجمیری نے تحریر فرمایا ہے کہ میرے سلسلوں میں ایک غوث جہانگیر پیدا ہوگا اور وہ ترقی کے ساتھ میرے سلسلہ کو جاری کرے گا۔ غرض کہ جس طرح غوث الثقلین محبوب سبحانی کے زمانہ ظہور سے پہلے آپ کی ظہور کی بشارت مشائخ ماسبق فرماتے تھے اسی طرح سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ظہور سے پہلے اولیاماسبق نے آپ کے ظاہر ہونے کی پیشن گوئی فرمائی تھی اور آپ کے پیر برحق حضرت شیخ علاؤ الحق پنڈوی نےمحبوب یزدانی کو  خوشخبری سنائی تھی کہ تم غوث زمانہ ہوگے اور اسی طرح حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ نے مژدۂ حصول مراتب غوثیہ اور قطبیہ حضرت محبوب یزدانی کو پہونچایا تھا۔                               (صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ135)
حضرت محبوب یزدانی نےفرمایا کہ اس فقیر نے حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کی تصانیف سے پانچ سو کتابیں دیکھی ہیں ۔ بیشتر آپ کی تصانیف فن حدیث و تصوف میں دیکھی گئی ۔ دوسو کتابوں کا دیباچہ اور خطبہ مجھ کو یاد ہے ۔ کتاب خاتمہ مکتوبات اشرفی میں نورالعین سے منقول ہے کہ حضرت محبوب یزدانی نے فرمایا کے سند علم قرأت  کی معناً پانچ پشتوں تک اپنے آباؤ اجداد سے علی الاتصال پہونچی ہے جس کی سند علی ابن حمزہ الکسائی سے اوپر منسوب ہے ۔ میر ا عمل قرأت امام عاصم اور نافع ہے ۔ اور یہ  بھی فرماتے تھے کہ میر ے سلطنت میں میرے خاندان سادات نوربخشیہ سے ستر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں  موجود تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی کی کہ پانچ پشتوں میں سلطان ابن سلطان اور سید ابن سید اور ولی ابن ولی اور حافظ ابن حافظ اور قاری ابن قاری اور عالم ابن عالم برابر نسلاً بعد نسلاٍ حضرت کے ہوتے ہوئے چلے آئے۔

غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی  صرف عربی اور فارسی پر ہی عبور نہیں رکھتے تھے بلکہ اردو زبان کےسب پہلے ادیب بھی مانے جاتے ہیں ۔ چنانچہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سابق سربراہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے اپنی تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ آپ کا ایک رسالہ اردو نثر میں ’’ اخلاق و تصوف‘‘ بھی تھا۔ پروفیسر حامد حسن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بھی یہی ہے کہ اردو میں سب سے پہلی نثری تصنیف سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ’’اخلاق و تصوف‘‘ ہے جو ۷۵۸؁ھ مطابق ۱۳۰۸؁ ء میں میں تصنیف کیا گیا یہ قلمی نسخہ ایک بزرگ مولانا وجہہ الدین کے ارشادات پر مشتمل ہے اور اس کے ۲۸ صفحات ہیں قادری صاحب نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذکورہ رسالہ اردو نثر ہی نہیں بلکہ اردو زبان کی پہلی کتاب ہے اور داستان تاریخ اردو میں لکھے ہیں ۔ اردو نثر میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں پس محققین کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی  قدس سرہ  اردو نثر نگاری کے پہلے ادیب و مصنف ہیں۔

تصانیف جلیلہ
تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
ê رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین
ê رسالہ غوثیہ
ê بشارۃ الاخوان 
ê ارشاد الاخوان
ê فوایدالاشرف
ê اشرف الفواید
ê رسالہ بحث وحدۃ الوجود
ê تحقیقات عشق
ê مکتوبات اشرفی
ê شرف الانساب
ê مناقب السادات
ê فتاوائے اشرفی
ê دیوان اشرف
ê رسالہ تصوف و اخلاق(بزبان اردو)
ê رسالہ حجۃ الذاکرین 
ê بشارۃ المریدین
ê کنزالاسرار
ê لطائف اشرفی  (ملفوظات سید اشرف سمنانی)
ê شرح سکندرنامہ
ê سرالاسرار  
ê شرح عوارف المعارف
ê شرح فصول الحکم  
ê قواعد العقائد
ê تنبیہ الاخوان
ê رسالہ مصطلحات تصوف
ê تفسیر نور بخشیہ
ê رسالہ در تجویز طعنہ یزید
ê بحرالحقائق
ê نحو اشرفیہ
ê کنزالدقائق
ê ذکراسمائے الہی
ê مرقومات اشرفی
ê بحرالاذکار
ê بشارۃ الذاکرین
ê ربح سامانی
ê رسالہ قبریہ
ê رقعات اشرفی
ê تسخیرکواکب
ê فصول اشرفی
ê شرح ہدایہ
حوالاجات
حیات غوث العالم   صفحہ 74 تا 77
صحائف اشرفی حصہ اول 115 تا 118
سید اشرف جہانگیر سمنانی  علمی دینی اور روحانی خدمات  صفحہ 173 تا 206

No comments:

Post a Comment