Friday 1 January 2016

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 5

بیت المقدس کیا ہے؟؟؟
بیت المقدس (Temple in Jerusalem یا Holy Temple) (عبرانی: בֵּית - הַמִּקְדָּשׁ، جدید عبرانی: Bet HaMikdash / بیت ہمقدش؛ طبری: Beṯ HamMiqdāš؛ اشکنازی: Beis HaMikdosh; عربی: بيت القدس / بيت المقدس) سے مرادہیکل سلیمانی ہے جو کہ قدیم یروشلم میں واقع تھا جو کہ موجودہ مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرۃ کا مقام ہے۔ "بیت المقدس"سے مراد وہ "مبارک گھر" یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہوں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی ق م میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔ (قبلۂ اول اور عالم اسلام)

مسْجِد اَلْاَقْصٰی
 ٭ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اّول تھا۔ سترہ ماہ تک اس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھی جاتی رہیں۔
٭  مسجد اقصیٰ ہی وہ جگہ ہے جہاں سے اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر لے گئے۔ ٭  مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں کیا ہے۔ 
٭ بیت المقدس فلسطین میں ہے اور یہ وہ  مقدس سرزمین ہے جہاں جلیل القدر انبیاء کا ورودہوا۔
٭  فلسطین بیت المقدس کو مسلمانوں میں سے سب سے پہلے حضرت عمرنے فتح کیا۔
٭ احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام (مکۃ المکرمہ )، مسجد نبوی (مدینۃ المنورہ) اور مسجد اقصیٰ (فلسطین)  شامل ہیں۔
بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصیٰ اورقبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں۔
سب سے پہلے حضرت ابراہیم  علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط  علیہ السلام نے عراق سے برکت والی سرزمین یعنی بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ 620عیسوی میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  حضرت جبرئیل علیہ السلام  کی راہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہونچے اور پھر معراج آسمانی کے لیے تشریف لے گئے۔ مسجد اقصیٰ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مقدس ترین مقام ہے۔
مقامی مسلمان اسے المسجد الاقصی یا الحرم القدس الشریف کہتے ہیں- یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں پانچ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصی میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالی نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:۔ 

سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا الَّذِیۡ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الْبَصِیۡرُ ﴿۱
 ترجمہ کنزالایمان : پاکی ہے اسے (منزّہ ہے اس کی ذات ہر عیب و نقص سے)  جو اپنے بندے کو راتوں رات (محبوب محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) لے گیا (شبِ معراج)مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک(جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ سے زیادہ کی راہ ہے)جس کے گرداگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
 سیدالتفاسیر المعروف بہ تفسیر اشرفی : کہ برکتیں رکھی ہیں ہم نے گرداگرد کے تحت  علامہ  رئیس المحققین سید المتکلمین شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی الجیلانی کچھوچھوی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ دینی برکت بھی اور دنیاوی برکت بھی ، دینی برکت یہ ہے کہ ہم نے ملک شام کی اس زمین کو وحی اترنے کی جگہ اور انبیاء علیہم السلام  کی عبادت گاہ بنایا  اور دنیوی برکت یہ ہے کہ وہ زمین درختوں اور نہروں سے گھری ہوئی ہے،میوؤں کی کثرت ، فراخی معشیت اور اززانی کے سبب سے مالامال ہے۔ ( سید التفاسیرالمعروف بہ تفسیر اشرفی  جلد5   صفحہ 236)
حضرت یعقوب نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا- پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان (961 ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی- اسی لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے تھے-

اسلامی عہد میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر
137ق م میں رومی شہنشہاہ ہیڈرین نے یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلا وطن کردیا- چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجے تعمیر کیے- جب نبی کریم معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اس وقت یہاں کوئی ہیکل نہ تھا، چنانچہ قرآن میں مسجد کی جگہ ہی کو مسجد اقصی کہا گیا- 2ہجری/624 عیسوی تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتی کہ حکم الہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا- 17ہجری یعنی 639عیسوی میں عہد فاروقی میں بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا-
جب خلیفہ دوم  امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کو یروشلم کی چابیاں دی گئیں تو اہل یروشلم نے خلیفہ کا استقبال نہایت جوش و خروش سے کیا- شہر میں داخل ہونے کے بعد خلیفہ دوم نے شکرانے کے نوافل کی ادائیگی کیلئے اہل علاقہ سے جگہ کی بابت دریافت کیا لوگوں نے آپ کی توجہ ایک گرجا گھر کی طرف دلائی لیکن حضرت عمر نے جو جواب دیا وہ قیامت تک اسلام کے ’’فلسفہ برداشت‘‘ کی روشن مثال ہے- آپ نے فرمایا کہ میں ہرگز گرجا میں نماز ادا نہیں کروں گا- اس وجہ سے آپ نے وہاں نماز ادا نہ کی- حضرت عمر نے اس جگہ چند دن قیام کیا اور مسلمانوں کیلئے بلند جگہ پر مسجد کی تعمیر کی۔


عیسائیوں کا قبضہ
11 صدی عیسوی کے اواخر میں جب عباسی خلافت کا شیرازہ بکھر رہا تھا اور سلجوق ترکمان باہم الجھے ہوئے تھے ۔ مسلمانوں کی مرکزیت کا انتشار کا شکار تھی ۔ عیسائیوں کی مشرقی اور مغربی کلیسا  متحد ہورہے تھے تاکہ بیت المقد س کو مسلمانوں سے چھینی جائے اوربالآخر وہ کامیاب ہوگئے اوربیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر عیسائیوں کے قبضہ میں آگیا ۔

No comments:

Post a Comment