Friday, 1 January 2016

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 18

اقوال
حضرت الحافظ القاری مولانا  الملك الناصر ابو المظفر
سلطان صلاح الدین الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ
ê       میں اپنی قوم کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث یاد کرانا چاہتا ہوں کہ ''اپنے آپ کو جان لو کہ تم کون ہو اور کیا ہواور اپنے دشمن کو اچھی طرح پہچان لو کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اور تمہارے متعلق وہ کیا ارادے رکھتا ہے''۔
ê       جس قوم کے نوجوان روحانیت  (دین) کو چھوڑ کر مردہ دلی اور فحاشی کی زندگی گزارنے پر اتر جائیں وہ قوم بغیر جنگ کے ہار جاتی ہے۔
ê       جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
ê       مجھے نہیں معلوم کہ اسلام تلوار سے پھیلا یا اخلاق سے مگر میں اس بات کو بخوبی جانتاہوں کہ اسلام کی حفاظت کے لئے تلوار کی ضرورت پڑتی ہے۔
ê       یادرکھو میرے دوستو! فوج بغیر قوم کے اور قوم بغیر فوج کے دشمن کے لئے آسان شکار ہوتی ہے۔
ê       صلیبی اور یہودی ہر دور میں اسلام کی فوج اورقوم کے درمیان منافرت پیداکرنے کی کوششیں کریں گے۔
ê       حکمراں جب اپنی جان کی حفاظت کو ترجیح دینے لگے تو ملک اور قوم کی حفاظت کے قابل نہیں رہتا۔
ê       جہاں روٹی مزدوری کی تنخواہ سے مہنگی ہوجائے وہاں تین چیزیں سستی ہوجاتی ہے (الف) عورت کی عزت  (ب) مرد کی غیرت (ج)مسلمان کاخون
ê       مسلمان کی تلوار پر جب عورت اور شراب کا سایہ پڑجائے تو یہ لوہے کا بے کار ٹکڑا بن جاتا ہے ۔
ê       اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہوتو اسکے نوجوانوں میں فحاشی پھیلادو۔
ê       سلطنت اسلامیہ کی کوئی حد نہیں تم نے جس دن اپنے آپ کو اور خدا کے اس عظیم مذہب اسلام کو سرحدوں میں پابند کر لیا اُس روز سے یہ سمجھو کہ تم اپنے ہی قید ہوجاؤ گےپھر تمہاری سرحدسکڑنے لگیں گے۔
ê       مجھے نظر آرہا ہے کہ فلسطین کا خطہ خون  میں ڈوبا رہے گا۔
ê       حکومت کا نشہ ، دولت اور عورت ، اچھے اچھے انسانوں کو اندھا کردیتے ہیں۔
ê       کافرسے پہلے غدار کو قتل کرنا ضروری ہے۔
ê       ایک جاسوس دشمن کے پورے لشکرکو شکست دے سکتا ہے اور ایک غدار اپنی قوم کو شکست کی ذلت میں ڈال سکتاہے۔
ê       باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہیئے ہو تو اپنی روایات نہ بھولو۔
ê       دفاع کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دشمن تمہیں مارنے کے لئے نیام سے تلوار نکال ہی رہا ہو پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے۔ وہ اگر کل حملے کے لئے آرہا ہو ، توتم اس پر ہی حملہ کردو۔
ê       اگرہم کفر کے طوفان کو نہ روکیں توہم مسلمان نہیں بلکہ بے غیرت ہونگے اور اگر اسلام کا دفاع اس طرح کریں کہ دشمن کے انتظار میں گھر بیٹھے رہیں اور جب وہ حملہ کرے تو گھر ہی میں اس کے خلاف لڑیں اور پھر یہ فخر بھی کریں کہ ہم نے دشمن کو پسپا کردیا تو یہ ہماری بزدلی  کا ثبوت ہوگا۔
ê       ہم عصمتوں کے پاسباں ہیں اور صلیبی عصمتوں کے بیوپاری۔
ê       تمہیں یہ اصول قرآن نے دیا ہے کہ جنگ ہو تو لڑو اورنہ ہو تو جنگ کی تیاری کرو۔
ê       حکمراں اپنی حکومت کی حفاظت کرتا ہے اور مجاہد اپنے ملک پر قربان ہوتاہے۔
ê       بری عادت اور اچھے تعلقات کی طاقت کا اندازه تب ہوتا ہے جب انھیں چھوڑنے کی کوشش کی جائے۔
ê       کبھی قوم اور فوج میں نفرت پیدا ہو جائے سمجھ لو سلطنت اسلامیہ کا زوال شروع ہو گیا۔
ê       مجھے ایک لاکھ عیسائیوں اورانکی تلواروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے مجھے توخطرہ ہے ان ایک ہزارمسلمانوں سے جو شراب کے پیالوں میں غرق ہوچکے ہیں۔
ê       آزادی کی تکلیف غلامی کے آرام سے بہتر ہے ۔
ê       اسلام کے محافظ شراب کے مٹکوں میں ڈوب گئے اور پاسبانوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا اور عورتیں ان کے پیروں کی زنجیریں بن گئی ہیں۔
ê       مجھے اس بات سے بحث نہیں کہ، اسلام اخلاق سے پھیلا یا تلوار سے،لیکن اسلام کی حفاظت کے لیے تلوار ضروری سمجھتا ہوں ۔
ê       زندگی ضرورت کے مطابق گزارو خواہش کے مطابق نہیں، کیونکہ ضرورت فقیرکی بھی پوری ہوجاتی ہےلیکن خواہش بادشاہ کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔
ê       " اللہ نہ کرے، اسلام کا نام جب بھی ڈوبا مسلمانوں کے ہاتھوں سے ڈوبے گا۔ ہماری تاریخ غداروں کی تاریخ بنتی جا رہی ہے۔یہ رجحان بتا رہا ہے کہ ایک روز مسلمان جو برائے نام مسلمان ہوں گے اپنی سرزمین کفّار کے حوالے کر دیں گے۔ اگر اسلام کہیں زندہ رہا تو وہاں مسجدیں کم اور قبحہ خانے زیادہ ہوں گے۔ہماری بیٹیاں صلیبیوں کی طرح بال کھلے چھوڑ کر بےحیا ہو جائیں گی۔کفار انھیں اسی راستے پر ڈال رہے ہیں۔
ê       ہمارے زوال کا باعث تخت و تاج کا نشہ اور زر و جواہرات کی محبت ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ ہم دنیا پر چھا گئے تھے اور کہاں ہمارا وقت ہے کہ دنیا ہم پر چھا گئی ہے اور ہم آخرت کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔
ê       مسلمانوں کی زندگی پھولوں کی سیج نہیں ۔جانتے نہیں ہو صلیبی سلطنت اسلامیہ کو چوہوں کی طرح کھا رہے ہیں اور جانتے ہو کہ وہ کیوں کامیاب ہو رہے ہیں؟ صرف اس لئے کہ ہم نے پھولوں کی پتیوں پر چلنا شروع کر دیا ہے۔
ê       تم پرندوں سے دل بہلایا کرو۔ سپاہ گری اس آدمی کیلئے ایک خطرناک کھیل ہے جو عورت اور شراب کا دلداہ ہو۔

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 16

عظیم جنگی  کارنامے
یہاں کچھ اور بھی عظیم کارنامے ہیں جنہیں سلطان علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں کے دوران سرانجام دیا اور شاید چھ برس سے زائد نہ ہوں گےاور یہ مختلف النوع کامیابیوں سے بھر پو ر ہیں اور وہ یہ ہیں :فتح بیت المقدس ، حماۃ، بعلبک،قلعہ عزاز،قلعہ البیرہ، قلعہ شقیف، بیسان، رُہا، حران، رقہ، بلادخاربور، بزریہ، قلعہ طرطوس ، دربساک، نفراس، انطاکیہ، قلعہ کوکب،عسقلان، بکاس، شغر، سرمین،نصیبین، تل خالد،عتناب، طبریہ ، الناصرۃ، ارسوف، ہونین، جبلہ ، انطرطوس، الاذقیہ، حص، عنصری، حصن الغازریہ، البرج الاحمر، حصن الخلیل،تل الصافیہ، قلعہ الحبیب الفوقانی، الحبیب التحتانی، الحصن الاحمر، لد، قلنوسہ، القاقون، قیمون، الکرک، حلب، قلعہ حارم، میارفارقین، قلعہ الشوبک، قلعہ السلع، الوعیرۃ، قلعہ الجمع، قلعہ الطفیلہ،طبریہ، عکا، قلعہ الھرمز، صفد، حصن بازو، حصن اسکندرونہ صور اور عکاکے ما بین، قلعہ ابی الحسن، بالائی ساحل پر ایک شہر، المرقید، حصن یحمور (جبلہ اور مرقب کے مابین) ، بلنیاس ، محیون، بلانس، حص الجماہریہ، قلعہ ایسذو ، بکسرائیل، انسرمانیہ، قلعہ برزیہ، طبریہ ، دربساک (انطاکیہ کے قریب)،  حیفا، نابلس، تنین ، صیدام بفراس (ارض بیروت میں) الدامور (صیدا کے نزدیک)،  السوفند اس کے علاوہ اور بھی ہیں جنکے نام  کچھ کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔
                                                ( تاریخ ابن خلدون، ایوبی کی یلغاریں صفحہ 79)
حضرت سلطان ایوبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ " میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ ساحل کے بقیہ علاقے اللہ تعالیٰ کب فتح کروائے گا!!! میں جب پورے ملک میں بنظر غائر دیکھتاہوں تو دل میں یہ بات اٹھتی ہے کہ لوگوں کو خیرباد کہوں ..... گھنے جنگلوں تک پہونچوں.....سمندر کی پشت پر سوار ہوکر .....ایک ایک جزیرہ تک پہونچوں .....زمین کا ایک ایک چپہ تلاش کروں ..... روئے زمین پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی کرنے والوں کو زندہ باقی نہ رکھوں ..... یا پھر میں خود شہید ہوجاؤں۔
وصال پرملال
جہاد کی پر مشقت زندگی اورمسلسل بے آرامی نے سلطان کو مریض بنادیا تھا ، مرض کی شدت میں  رمضان کے کئی روزے قضا ہوگئے مگر جہاد نہ چھوٹا، اب جو موقع ملا توقضا روزے ادا کرنا شروع کردیئے ، معالج نے ان کی تکلیف کا لحاظ کرتے ہوئے اس سے منع کیا مگر سلطان نےاس اتفاق نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ  "   معلوم نہیں آئندہ کیا ہو، چنانچہ وہ مسلسل روزے رکھتے رہے اور اپنی قضا کا پورا کفارہ کردیا ۔اسی قیام میں شہر پناہ کی مرمت کروائی ، خندق کھدوائی، نئے اوقاف قائم کیے اور پھر بیت المقدس کا نظام امیرعزالدین جرء کے سپر د کرکے دمشق روانہ ہوگئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس سال سلطان نے اپنی کمزوری اور نقاہت کے باوجود دمشق سے باہر آکر حج حرمین الشریفین سے لوٹنے والوں کا گرم جوشی اور پرتپاک انداز سے استقبال کیا ۔ وہ اگلے سال خود بھی حج پاجانے کا ارادہ رکھتے تھےلیکن وسط صفر المظفر میں مرض شدت اختیار کرگیا اور وصال سے تین روز قبل غشی کی سی حالت طاری ہوگئی، معلوم ہوتاتھاکہ بیس سال کا تھکاماندہ مجاہد تکان اتار رہا ہے 27 صفر المظفر 589ہجری کی صبح کا ستارہ افق نمودار ہوا تو سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ کی نبضیں ڈوب رہی تھیں ۔حضرت شیخ ابوجعفرعلیہ الرحمہ نے سکرات موت کے آثار محسوس کرکے سورۃ حشر کی تلاوت شروع کی جب آیت  ھواللہ لا الہ الا ھو عالم ال پر پہونچے تویکایک سلطان نے آنکھیں کھول دیں مسکرائے اور تبسم ریز لہجےمیں کہا "سچ ہے"یہ کہہ کر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں ۔
شیخ ضیاء الدین ابوالقاسم عبدالمالک نے غسل دیا اور قلعہ کے باغ کی بارہ دری میں عصر کے وقت اسی مقام دفن کردیا ۔جہاں انہوں نے انتقال فرمایا تھا ، جوتلوار جہادوں میں ان کے زیب کمرتھی ان کے برابر میں رکھ دی گئی اور اسے وہ جنت میں اپنے ساتھ لے گیا ۔
 مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  فاتح بیت المقدس، فلسطین،  شام ، یمن ، لبنان ، اردن، عراق، مصر ،حجاز ،بصریٰ ،دمشق ،حمص کا جب وصال ہوا تو ان کے کفن کےلئے قرض حاصل کرکے ان کی تدفین کا انتظام کیا گیا  حتی کہ اور لکڑیاں تک جو قبر میں لگیں قرض پر منگوائی گئیں۔ان کی وصال کے بعد جب ذاتی مال و ملکیت کا حساب کیا گیا تو ایک گھوڑا، ایک تلوار، ایک زرہ ، اور 36 چھتیس درہم  کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا ۔ آپ شدید خواہش کے باوجود حج نہ کرسکے کیونکہ کے حج کے لئے رقم نہ تھی۔
لوگوں ہر اس قدر ہجوم الم تھا کہ ان کی زبانیں گنگ ہوگئی تھی ۔ دبن کے بعدہر شخص گھر چلا گیا اور ماتم میں مکان کے دروازے بند کرکے بیٹھ رہا ۔ صرف خاموشی اور سنسان سڑکیں بتاتی تھیں کہ لوگوں پر کس قدر عظیم صدمہ گزراہے ۔
B                      طبیب عبداللطیف نے لکھا ہے کہ " اس کے علم میں صرف اسی ایک سلطان کی نظیر ہے ۔جس کے لئے واقعی رعایا نے ماتم کیا "۔
B                      مورخ ابن خلکان کے مطابق ”ان کی وفات کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا“ ۔
B                      سلطان العادل حضرت نورالدین زنگی الحنفی علیہ الرحمہ اپنے دورحیات میں فرمایا کرتے تھےکہ اسلام کو ہر دور میں ایک صلاح الدین ایوبی  (علیہ الرحمہ) کی ضرورت ہوگی ۔
B                      انگریز مؤرخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ”اس کے ہمعصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور انہوں نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔
B                      مشہورمؤر خ ولیم آف ٹائر نے سلطان کی شان میں کہا ہے کہ بے مثال ذہانت کاحامل ، دوران جنگ ایک برق رفتار وجود اور انسان کی توقع سے بھی زیادہ شریف اورکریم النفس۔
B                      مشہور انگریزداں دانتے نے کہا ہے صلاح الدین کی ذات ایسی منفرد اور عظیم الشان ہے کہ جس کو دیکھ کر میں بھی اپنے انسان ہونے کو فخر کرسکتاہوں۔
اللہ عزوجل کی سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  پر  کروڑہا کروڑرحمتیں نازل  ہو اور  اللہ  سبحانہ وتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ و سلم کے وسیلے سے اسلام کو پھر ایسے حکمران عطا کرے۔ جن میں ایسا جذبہ جہاد ہو۔ جومسلمانوں پر ہونے والے ہرظلم وستم کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 15

شعائر مقدسہ کی حفاظت
جب بیت المقدس کا شہر دشمن سے خالی ہوگیا  تو سلطان صلا ح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے حکم دیا کہ اس کے مقدس شعائر اور اشیاء اپنی قدیم حالت کی طرف لوٹا دی جائیں کیونکہ فرنگیوں نے ان میں بہت تبدیلی کردی تھی لہذا انہیں اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹا دیا گیا۔

 مسجد  اقصٰی کی صفائی
اس  کے بعد غازی اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  نے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو نجاستوں سے پاک کر کے ان کے فرش اوردیوار یں گلاب ِ دمشقی سے دھلوائیں ۔ ان مقدس مقامات میں صلیبیوں نے حضرت عیسیٰ ومریم علیہم السلام کی خیالی تصویربنوارکھی تھی انہیں صاف کرنے اور جمعہ پڑھنے کا حکم دیا ۔ قاضی محی الدین بن علی الشافعی علیہ الرحمہ نے خطبہ  پڑھا انہوں نے خطبے میں موجودہ حالات اور اسلام کی عظمت کو اس طرح بلاغت آمیز مؤثرانداز میں بیان کیا کہ اس کو سن کر مسلمانوں کے رونگٹے گھڑے ہوگئے ( یہ خطبہ اس قدر عمدہ تھا کہ ) راویو ں نے اور مؤرخوں نے اسے نقل کرکے  بیا ن کیا ۔

صلاح الدین کی امامت
بعد ازاں سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ نے مسجد اقصیٰ کی پنج وقتہ نمازیں امام اور خطیب کی حیثیت سے پڑھاتا رہا،اس نے حکم دیا کہ اس کے لئے منبر تیار کیا جائے اس پر مسلمانوں نے اسے آگاہ کیا کہ بیس سال ہوئے سلطان العادل حضرت  نورالدین محمود  زنگی الحنفی علیہ الرحمہ  کے لئے ایک منبر تیا رکیا گیا تھا اور حلب کا کاریگروں نے اکٹھے ہوکر کئی سالوں میں اس منبرکو عمدہ کاریگری سے تیا ر کیا تھا لہذا سلطان نے حکم دیا کہ وہ منبر لاکر مسجد اقصیٰ میں نصب کیا جائے۔آپ نے یہ بھی حکم دیا کہ مسجد اقصیٰ کو آباد کیا جائے اور اس کی مناسب تعمیرکی جائے اور قبۃ الصخرہ  کے اوپر سے سنگ مرمر اکھیڑ دیا جائے ، اس  کی وجہ یہ تھی کہ عیسائیوں  کے پادری صخرہ کے پتھر کو فروخت کرنے لگے تھے وہ اس پتھر کو تراش کرکے اسے سونے کے بھاؤ پر فروخت کرتے تھے فرنگی عیسائی اس سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کی خریداری میں مقابلہ کرنے لگے اور پتھر کے ان ٹکڑوں کو اپنے گرجاؤں میں رکھنے لگے ۔ اس نتیجہ یہ ہوا کہ فرنگی بادشاہوں کے دلوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ صخرا  فنا نہ ہوجائے  لہذا  ( اس کی حفاظت کے لئے ) انہوں نے اس صخرہ کے اوپر سنگ مرمر کا فرش بچھا دیا ۔( مگر بیت المقدس کی فتح کے بعد ) سلطان صلاح الدین نے اس کے اکھیڑنے کا حکم دیا ۔ اب مسجد اقصی ٰ میں قرآن کریم کے بہت سے نسخے اکٹھے ہوگئےاور وہاں ( تلاوت قرآن  کے لئے) قاری مقر کیے گئے جن کی تنخواہ مقرر تھی سلطان نے وہاں خانقاہیں اور مدارس بھی تعمیر کرائے ۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ ہشتم صفحہ 539)
 بتادوں کہ بیت المقدس پر تقریباًً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948 عیسوی  میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔1967 عیسوی کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا ۔

تیسری صلیبی جنگ
جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔
عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ  نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان  صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباًً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں‌کام آئے۔
معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں:
B                        بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔
B                        ارسوف، حیفہ، یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے
B                        عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔
B                        زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔
B                        صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔
تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین حکمران ہے ۔