قبۃ الصخرہ
اموی
خلیفہ عبد الملک (685ء تا 705ء) نے قبۃ الصخرہ کی تعمیر مکمل کی اور مامون الرشید
اور معتصم کے زمانے میں اس کی تجدید ہوئی- مشہور مسلمان جغرافیہ نگار مقدسی یروشلم
میں 375ء میں پیدا ہوا تھا، وہ قبۃ الصخرہ کے بارے میں لکھتا ہے ’’یہ ایک ہشت پہلو
عمارت ہے- اس کے چار دروازے ہیں جن تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنچا جاتا ہے۔
اندرونی حصہ تین ہم مرکز والانوں میں منقسم ہے
جن کے ستون سنگ مرمر کے ہیں۔ اس کے وسط میں صخرہ ہے اور اس کے نیچے غار ہے جس میں
ستر آدمی سما سکتے ہیں- صخرہ کے گرد ستونوں کا حلقہ اسے باقی حصوں سے جدا کرتا ہے،
اس کے اوپر ایک دریچے دار ڈھولنا ایک خوبصورت گنبد کو اٹھائے ہوئے ہے- گنبد کی چھت
تک بندی 100 باع (سواسو گز) ہے- گنبد لکڑی کے تین چوکھٹوں کا بنا ہوا ہے- نیچے
والے پر سنہری تانبا چڑھا ہوا ہے، دوسرا لوہے کی سلاخوں کا ہے اور تیسرا لکڑی کا،
جس پر دھات کے پترے چڑھے ہوئے ہیں۔
معراج
کی رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے قبۃ الصخرہ تشریف لے گئے اس لئے
حدیث شریف میں وارد ہو اکہ صخرہ بیت المقدس جنت کے پتھروں سے ہے۔ اسی پتھر پر حضور
سرورکائنات ﷺ کے قدم مبارک کا نشان موجود ہے۔
حضرت ابی
بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دنیائے عالم کا کوئی ایسا میٹھا پانی نہیں جسے
اس صخرۂ بیت المقدس سے تعلق نہ ہویعنی تمام روئے زمین کے چشموں کا پانی اسی صخرہ
سے جاتا ہے یہ صخرہ (پتھر) اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت کا ایک عجوبہ ہے۔ (بیت المقد س صفحہ 44)
اس پتھر
کے نیچے ایک غار ہے جو دوردور تک پھیلی ہوئی ہے اور وہ پتھر زمین وآسمان کے درمیان
لٹکا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت امام ابن عربی نے شرح مؤطا میں لکھا ہے کہ مجھے خیال ہوا
کہ میں اسی پتھرکے نیچے سے گزروں لیکن اس کی ہیبت سے اس کے نیچے سے نہ گزر سکا اس
خطرہ سے کہ شاید وہ میرے گناہوں کی نحوست سے میرے اوپر گر جائے۔ پھر ایک مدت کے
بعد جرأت کرکےاس کے نیچے سے گزرا توبڑے عجائبات نظر آئی منجملہ اس کے ایک یہ تھا
کہ مجھے ہر طرف سے چلتا ہوا نظرآیا باوجود اس کے کہ اس کا کوئی ٹکڑا زمین سے متصل
نہ تھا بلکہ اس کے اپنے بعض ٹکڑے اس سے بہت جد ا نظر آتے تھے۔
مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ
مسجد
اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں سب عمارتیں جن میں اہم ترین قبۃ
الصخرہ ہے جواسلامی طرز
تعمیر کے شاندار نمونوں میں شامل ہے ۔ تاہم آجکل یہ نام حرم کے جنوبی جانب والی
بڑی مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے ۔
وہ مسجد
جو کہ نماز کی جگہ ہے وہ قبۃ الصخرہ نہیں، لیکن آج کل قبہ کی تصاویر پھیلنے کی بنا پر اکثر
مسلمان اسے ہی مسجد اقصیٰ خیال کرتے ہيں حالانکہ فی الواقع ایسی کوئی بات نہیں
مسجد تو بڑے صحن کے جنوبی حصہ میں اور قبہ صحن کے وسط میں ایک اونچی جگہ پر واقع
ہے۔
ارض بیت المقد س کے مشہور مزارات
حضرت
سیدنا ابراہیم علیہ السلام (مسکن
لہیا ، مزارالخلیل حبرون) 2۔حضرت سیدنا اسحاق
علیہ السلام (مزارالخلیل) 3۔حضرت سیدنا یعقوب
علیہ السلام (مسکن کنعان) 4۔ حضرت سیدنا نوح علیہ السلام ( مزاربعلبک) 5۔ حضرت سیدنا
ہود علیہ السلام 6۔ حضرت سیدنا عزیر علیہ السلام (اعبلین) 7۔ حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام( بیت اللحم) 8.سموئیل
نبی (مزار خبیب) 9۔ حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام ( بیت اللحم مسکن) 10. یوسع نبی (مسکن جریکو، مزارصرافہ) 11. حضرت سیدنا لوط
علیہ السلام ( مسکن سدوم مزار نزد الخلیل) 12.حضرت سیدنا الیاس علیہ السلام ( مزار
بقاع کلب) 13.حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام ( مسکن حوران) 14. حضرت سیدنا شعیب علیہ
السلام (مزار کوہ حطین) 15. حضرت سیدنا یونس علیہ السلام ( مسکن حوران ،
مزارجلجول) 16. حضرت سیدنا صالح علیہ السلام (مزارقنسرین) 17۔ حضرت سیدنا زکریا
علیہ السلام و 18۔ حضرت سیدنا ہارون علیہ
السلام ( مزار سبسطیہ) 19۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام (مسکن سینا مصر) 20۔ حضرت
سیدنا ہارون علیہ السلام ( مزار کوہ ہود) 21۔ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (مسکن
بیت اللحم لدہ) 22۔ حضرت سیدتناسارہ زوجہ
حضرت ابراہیم خلیل اللہ 23۔ حضرت رابقہ
زوجہ یعقوب علیہ السلام(مزار الخلیل) 24۔ یہودا بن یعقوب علیہ السلام (مزار رومہ
،طبریہ) 25۔ راحیل والدہ حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام (مزاربیت اللحم) 26۔ صفورہ بنت
شعیب علیہ السلام (مزار کوہ حطین) 27۔ والدہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام (مزارارہد
عکہ) 28۔ مریم والدہ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (مزاربیت المقدس) سیدتناام
کلثوم زوجہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم (راویہ، دمشق) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ (مزارطبریہ ) حضرت سیدنا عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ۔
انکے علاوہ اور بھی بہت مزارات ہیں صرف نمومے کے
طور پر چند اسمائے مبارکہ لکھے ہیں۔
No comments:
Post a Comment