Friday, 1 January 2016

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 2

تعلیم و تربیت
حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ تکریت کے ایک قلعہ میں پیدا ہوئے تھے، گو کہ ان کی تربیت مکمل فوجی ماحول میں ہوئی لیکن ان کی ہمیشہ کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ ایک عالم بنیں اور ہوتی بھی کیوں نہ کہ اس زمانے کے سب سے بہترین انسان نورالدین زنگی نے ان کی تربیت خود کی تھی۔آپ نے کم عمری ہی میں قرآن  کریم حفظ کر لیا تھا اور آپ خود اہلسنت و جماعت اورشافعی صوفی تھے۔
تاریخ اسلام میں  ہے کہ "شیرکو ہ اور صلاح الدین دونوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے ۔ صلاح الدین ایوبی نے شیعہ قاضیوں کو موقوف کرکے شافعی قضاۃ مامور کیا ۔ مدرسہ شافعیہ اور مدرسہ مالکیہ کی بنیاد رکھی ۔" (تاریخ اسلام جلد دوم صفحہ 722)
مزید آگے فرماتے ہیں کہ"صلاح الدین کی وجہ سے مصر میں دم بہ دم شیعیت کو تنزل اور سنی مذہب کو ترقی حاصل ہوئی۔"(ایضاً صفحہ 723)
یہ وہ وقت تھا جب عیسائی ایک بار پھر سے زور پکڑتے جا رہے تھے اور کوئی دن ایسا نہ تھا جب آپ ان کی فتوحات کی خبریں نہ سنتے ہوں۔ ان کی والدہ کا بیان ہے کہ جب آپ ان کے پیٹ میں تھے جو انہوں نے خواب دیکھا کہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ان کے اندر ہے۔
آپ  نےمدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی  یا درہے کہ مشہور وزیر اعظم  نظام الملک طوسی دنیا ئے اسلام کے ایک سلطنت کے وزیر تھے  یہ مدرسہ انہوں نے قائم کیا  تھا جس میں  اسلامی تعلیم دی جاتی تھی اور بچوں کو اسلامی نظریات اور تاریخ سے بہر ور کیا جاتا تھا ۔  ( داستان ایمان فروشوں کی حصہ اول صفحہ 16)
حضرت علامہ نظام الملک خواجہ حسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۷ تا۱۰۹۲ عیسوی)  بہت بڑے عالم و فاضل باصفا  اور باعمل تھے، علم و فن کے نہایت اعلیٰ درجہ کے قدر دان بھی، آپ نے تعلیم کی افادیت پر زور دیا اور اس کے لئے عملی طور پر بہت کام کیا ، آپ ملک شاہ سلجوقی کے وزیر اعظم تھے، حکومت میں آپ کا بڑا عمل دخل تھا اور آپ کے مشوروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی اور آپ کا تعلق بھی اسی دور سے تھا ۔ بلند پایہ، صوفی اور فلسفی  حجۃ الاسلام ابوحامد محمد غزالی الطوسی الصوفی الشافعی (1059-1111 عیسوی) کا تعلق اسی دور سے تھا۔عظیم مصلح غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ  470ہجری تا 561 ہجری بمطابق 1077-1166 عیسوی جوکہ سُنّی حنبلی طریقہ کے نہایت اہم صوفی شیخ (اور سلسلہ قادریہ  کے بانی ہیں بھی ) اسی دور سے تعلق رکھتے تھے۔ فارسی کے مشہور شاعرغیاث الدین ابوالفتح عمربن ابراہیم الخیام المروف عمر خیام اور محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی المعروف مولانا جلال الدین رومی تبریزی کا تعلق بھی اسی دور سے تھا۔       (ویکیپیڈیا  آزاد دارۃالمعارف)
پہلے پہلے مساجد میں مدارس کا کام ہوتا تھا، پھر چوتھی صدی ہجری میں سب سے پہلا مدرسہ علیحدہ عمارت میں قائم ہوا،مشہور مفکر عالم ناجی معروف لکھتے ہیں:
سب سے پہلے مدرسہ کا نام ”مدرسۃ الصادریہ “ تھا جس کی بنیاد شام میں ۳۵۰ہجری میں پڑی، پانچویں صدی ہجری میں مدرسہ صادریہ کے نہج پر کئی دوسرے مدارس قائم ہوئے جن میں قابل ذکر ”مدرسہ بیہقیہ “ اور مدرسہ سعدیہ ہیں جن کی بنیاد نیشاپور میں پڑی۔
( نشأة المدارس المستقلۃ فی الاسلام صفحہ 4-5)
 اس کے بعد اسلامی دنیا کا سب سے معروف و مقبول مدرسہ نظامیہ قائم ہوا،جس کو سلطان ارسلان سلجوقی کے علم دوست وزیراعظم نظام الملک خواجہ حسن طوسی نے قائم کیا۔ ( ایضاصفحہ 5)
تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ "حضرت نظام الملک طوسی  علیہ الرحمہ نے دارالخلافت بغداد میں بہت بڑا مدرسہ بنوایا جس کا نا م نظامیہ تھا ۔ شیخ ابواسحاق شیزاری اس مدرس اعلیٰ تھے 476 ہجری میں انہوں نے وفات پائی ۔ تب موید الملک ابن نظام الملک نے شیخ ابواسحاق شیرازی  کی جگہ ابوسعید کو مامور کیا لیکن یہ تقرری نظام الملک کو نہ بھائی، امام ابو نصر صباغ صاحب کو یہ خدمت سپردکی اسی سنہ کی ماہ شعبان میں امام ابو نصر نے بھی اس دنیائے فانی کو چھوڑدیا ۔ تب نظام الملک نے ابو سعید کو 478 ہجری میں اس خدمت پر متعین کیا اس کے بعد شریف علوی، ابو القاسم دبوسی  نظامیہ کےصدر مقرر ہوئے ۔ 482 ہجری میں ان کا بھی انتقال ہوگیا ۔ ابو عبداللہ طہری اور قاضی عبدالوہاب شیرازی باری باری نظامیہ میں درس دنیے  لگے۔ 484 ہجری میں امام ابوحامد محمد غزالی ( علیہ الرحمہ) مسند درس و تدریس پر متمکن ہوئے جو ایک مدت تک اس خدمت مامور رہے ۔نظام الملک کے عہد وزارت میں تعلیم وتعلم کا بے حد چرچا ہوا چونکہ اس کا نتیجہ اچھا دکھتے تھے اس وجہ سے لوگوں کی توجہ علم دین کے حاصل کرنے کی طرف زیادہ تھی۔ (تاریخ ابن خلدون حصہ ہفتم صفحہ 41)

No comments:

Post a Comment