اس ( الدولۃ الزنکیہ) کتاب میں محقق علی محمد الصلابی نے سلطانِ معظم مجاہدِ
اسلام حضرت نورالدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانح بیان کی ہے اور مقدمہ میں
اختصار کے ساتھ تحریر کیا ہے کہ سلطان نے سنیوں کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کی اور
چونکہ وہ دور حضرت شیخ المشائخ غوث الاعظم عارف باللہ شیخ محی الدین عبدالقادر
الجیلانی رضی اللہ عنہ کا دور تھا، اور ان
کا طُوطی چاردانگ عالم بول رہا تھا اور علومِ دین و شریعہ میں ان کی مثال کوئی نہ
تھا جنکا منہاج ، منہاجِ اہلسنت وجماعت پر تھا اور تعلیم حجۃ الاسلام حضرت امام
غزالی رضی اللہ عنہ کا تھا اسلئے سلطان
نورالدین کو ان سے بھی فیض حاصل ہوا اور
دینی لحاظ سے تمام تر فتوحات وغیرہ کے پس پردہ جو تعلیم تھی وہ ان شیوخ کی تھی۔ اس
کے علاوہ یہ بھی کہ سلطان نے تمام سنی چاروں مذاہبِ اسلام یعنی حنفی، مالکی، شافعی
اور حنبلیوں کےلئے مدارس کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کے لیئے جا بہ جا خانقاہوں اور
اذکار کی محافل کی جگہوں کا بھی انتظام و انصرام کیا۔ نیز ابن تیمیہ کا بھی
ذکر ہے کہ جس نے حضرت شیخ جیلانی رضی اللہ عنہ کو عظیم مشائخ اور ثقہ علماء میں سے
ثابت کیا ہے اور ان سے متاثر بھی تھا۔
یعنی
ثابت ہوا کہ اسلام کا یہ عظیم سپوت اور حقیقی مجاہد، ملک الناصرحضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃاللہ
تعالیٰ علیہ کی طرح مقلد اور سنی المذہب کٹر اور صوفیاء سے محبت رکھنے والے سلطان
تھے۔ ان کی قبر مبارک دعاؤں کی قبولیت کا بے مثال مظہر ِ الٰہیہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان پاک ترین نفوس پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے
جنہوں نے بنا کسی کا گلا کاٹے ، بنا خودکش کئےاسلام کے عظیم پھول کی آبیاری کی،
حیف ہے زمانے کی چال پر کہ آج اسلام میں (صیہونی دہشتگرد) تبلیغ اور مجاہد کے نام
پر اسلام کو بدنام کررہے ہیں۔ صد کروڑافسوس.........
اس( الدولۃ الزنکیہ) کتابِ تاریخ میں
ڈاکٹر علی محمد الصلابی نے حضرت شیخ سید عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کی سیرت
بیان کی ہے، اور اس کے ایک باب میں ذکر کیا ہے کہ مدرسہ (القادریہ) کی بنیاد ہی مجاہد
اسلام حضرت سلطان نورالدین زنگی الحنفی
علیہ الرحمہ نے اس لئے رکھوائی تھی کہ تمام تر سنی چاروں مذاہبِ فقہ ایک
جگہ پر متحد ہوسکیں، یعنی دوسرے الفاظ میں تصوف اور شیخ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر الجیلانی رضی اللہ عنہ کی منہاج کی
ترویج اس لئے سلطان نے کی تاکہ مسلمانوں کوصلبیوں کی ثقافی، مذہبی گمراہی، بدکاری
معاشی، و معاشرتی یلغاروں کو مسلمانوں پر سے روک سکیں ، اور اس کام میں طریقتِ
قادریہ پر ایک مدرسہ بنوایا گیا جہاں سے تبلیغِ دین ، اشاعت اسلام کا کام ہوتا اور
صلیبیوں کی ان یلغاروں سے متحد ہوکر امت مسلمہ کا تحفظ کیا جاتا ۔ مدرسہ
قادریہ نے اس اہم موقعہ پر یہ اہم خدمت سرانجام دی۔
یہ بات
بین ثبوت ہے کہ تصوف اسلام کی روح ہے اور آج کے جو نام نہاد (سلفی ،وہابی دیوبندی)
وغیرہ اسکی مخالفت کرتے ہیں وہ خود اسلام سے نآ شنا ہیں اور ان کا تاریخ میں کوئی
رول نہیں رہا ہے ، ہمیشہ آپ کو تاریخ میں صوفیاء کا ذکر ملے گا جو مجاہد تھے، کٹر
سنی تھے مقلد تھے ۔ چاہے کوئی صوفی نہ بھی ہو تب بھی وہ ان کو شرک نہیں کہتا تھا
نا کسی نے اسکو شرک سمجھا ورنہ تصوف کے مدرسے کی اشاعت وہ بھی صلیبی دور میں کیا
معنی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تصوف کو اسلام کی بقا روح اور صفائی قلب کی علامت سمجھا
جاتا تھا۔ جبکہ ان کے مخالفت میں کون تھے؟ صلیبی اور حشیشین یعنی اس دور کے
خوارج میں حشیشین تھے ، جبکہ آجکل (سلفی دیوبندی وہابی ) ہیں۔
"اللہ
تعالیٰ تیری (حضرت نورالدین ) ان ہڈیوں کو جو مٹی کے نیچے بوسیدہ ہوگئی ہیں، عفوو مغفرت کا لباس پہنائے اور
جس قبر میں انہوں اسے رکھا ہے ، اسے رحمت سے سیر اب کرے اور ان کی قبر کی جگہ کو
روح و ریحان سے بھردے" ۔ (البدایہ
والنہایہ جلد 12 صفحہ 362)
آپ کے
مفصل حالات کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
No comments:
Post a Comment