Friday, 1 January 2016

سلطان صلاح الدین ایوبی الشافعی علیہ الرحمہ قسط 3

فیضان غوث الاعظم
ایک بار حضرت نجم الدین ایوب  بغداد معلیٰ حاضر ہوکر اپنے دس سالہ بیٹے حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ  کی خدمت بابرکت میں پیش کردیا اور عرض کی کہ یا سیدی  یا مرشدی ! اس بچے کے سرپر اپنا نورانی ہاتھ رکھ دیں اور اس کے لئے دعا فرمادیں کہ یہ اسلام کا عظیم مجاہد اور فاتح بنے ۔ چنا نچہ حضور غوث الاعظم نے اس بچے کے سر پر دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ " یہ بچہ تاریخ عالم کی ایک عظیم نامورشخصیت ہوگااور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ سے بہت بڑی اسلام کی فتح کرائے گا۔" (حیات المعظم فی مناقب سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ صفحہ 152- 154 )  و (اسلامی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا  صفحہ 443)
چنانچہ پھر دنیا نے دیکھا کہ حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی جو سلطان نورالدین زنگی کی افواج میں ترقی پاکر جرنیل بنے اور پھر صلیبی جنگوں کے دوران سلطان نورالدین کی اچانک وفات کے بعد سلطان بنائے گئے اور پھر سلطان بن جا نے کے بعد حضرت سلطان صلاح الدین ایو بی نے عظیم کارنامے انجام دئے وہ تاریخ اسلام کا زریں باب ہیں۔یہ سب کچھ سید نا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شان کرامت اور دعاؤں کا نتیجہ تھا۔
اسی طرح  جس زمانے میں سلطان صلاح الدین ایوبی شام میں فتوحات حاصل کررہے تھے اس وقت مسلم دنیا میں کوئی بھی ان کے پائے کا حکمراں نہیں تھا گوکہ حضرت سلطان شہاب الدین غوری علیہ الرحمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہم عصر تھے مگر وہ ہندوستان میں فتوحات حاصل کررہے تھے ۔ وہ پہلے افغان مسلمان سپہ سالار تھے  جنہوں نے پرتھوی راج چوہان کو شکست دے کر دہلی پر پہلی اسلامی حکومت قائم کی ۔ آپ کا یہ دور سلطان الہند عطائے رسول خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کادور ہےاور خودسلطان غوری بھی حضرت خواجہ غریب نواز  سے فیض لیا کرتے تھے۔ (تاریخ اسلام)
مسلمان غازیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جہاں ا ن کی جنگی فتوحات اور جنگی حکمت عملی کا ذکر ہوتاہے ، وہیں یہ پہلوبھی باربار ہمارے سامنے آتاہے کہ ان غازیوں کے شخصیت میں ایک پراسرارروحانی جہت بھی تھی ۔ یاد رہے کہ  حضرت نورالدین زنگی  علیہ الرحمہ کا حضور ﷺ سے قریبی روحانی تعلق تھا یہ حضور کافیضان تھا کہ پوری دنیا سے صرف انہی کو مدینہ منورہ کی مہم کے لئے منتخب کیاگیا چنانچہ اس کا ذکر  آگے کیا جائے گا۔یہ ایک غیرمعولی روحانی پہلو ہے کہ جس کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔وہ تمام مسلمان جرنیل ،غازی، اور حکمراں کہ جنہوں نے تاریخ میں نئے باب رقم کئے ۔ ان سب میں یہ پر اسرار روحانی پہلو نظر آتی ہے ۔اللہ اور اس کے رسول سے ان کا روحانی تعلق کبھی ظاہر ہوتاہے اور کبھی پوشیدہ ہی رہتاہے لیکن یہ پہلو اِ ن سب میں موجود ضرور ہوتا ہے۔یہی وہ عنصر ہے جوکہ ان کو پراسرار بناتا ہے اور یہ مافوق الفطرت وجود معلوم ہوتےہیں اور ایسے ایسے جنگی کارنامے انجام دیتےہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
یہ روحانی پہلو ہمیں غازی کے وجود میں نظر آتی ہےچاہے وہ امیر حمزہ ، حضرت عمر فاروق اعظم،  عمر بن عاص، قتیبہ بن مسلم، سعد بن ابی وقاص،  سعد بن زید ،عتبہ بن نافع، خالد بن ولید ،  سلطان نورالدین زنگی  الحنفی ، موسیٰ بن نصیر،عمادالدین زنگی ،سلطان صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد ، محمد بن قاسم ، سلطان محمد غزنوی الشافعی ، عمر المختار المالکی   ، عبدالقادر الجرائری المالکی ، عمر المختار المالکی ،ناصرالدین محمود ، یوسف بن تاشقین مالکی،  الپ ارسلان ،  سلطان محمد فاتح الحنفی ، اما م شامل الحنبلی نقشبدی ،الشیخ عزالدین قسام الشافعی ، خیرالدین باربروسہ وغیرہ بھی ایسے ہی پراسرار مجاہد تھے جن کی تلوار سے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے دفاع کا کام لیا ہے اور ان کو یہ توفیق بخشی ہے حضور ﷺ کی خاص الخاص خدمت کرسکیں۔ اس کے بعد اس شخص کی خوش نصیبی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔
جب قائد اپنے بلند مقام پر ہو کہ ان کے ہرکام کی نگرانی خود ارسول اعظم فرمارہے ہوں تو پھر قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے پروں کے سائے میں ایسے شہباز فتح ہی ملے گی  ۔
یہاں پر ایک عجیب و غریب واقعہ رو نما ہوتا ہے ۔ سلطان کی فوج میں ہمیشہ بھاری تعداد میں امت مسلمہ کے علماء عظام  ،مشائخ کرام، درویش، فقراء اور صوفیاء شامل ہوا کرتے تھے اور ان کا کام دعائیں کرنا اورمجاہدین کے حوصلہ بڑھانا ہوتا تھا اور ضرورت پڑنے پر سلطان ان سے فتویٰ بھی لیا کرتے تھے ۔ لیکن یہ علماء ، مشائخ ،صوفیاء، فقراء اور درویش کبھی بھی خود تلوار ہاتھ میں لے کر جنگ نہیں کرتے تھے ان کے علم ، مقام اور مرتبے کی وجہ سے ان کو ایک الگ مقام حاصل تھا اور ان کا زیادہ تر وقت فوج کی اخلاقی و روحانی تربیت اور دعاؤں میں گزرتاتھا۔سلطان ایوبی  ان کا خاص خیال رکھتے تھے اور فوجیوں میں بھاری اکثریت حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے تلامذہ کی تھی۔ جو علماء اور فضلاء تھے  اور باقی کچھ مدرسہ نظام الملک (جو حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی )کے مدرسےکے تھے  اور جو چیف ایڈوائزر (Chief Advisor) تھے جن کا نام امام موفق الدین ابن قدامہ  المقدسی الحنبلی ہیں وہ سیدناسرکار غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی الحنبلی رضی اللہ عنہ کے شاگرد ، مرید اور خلیفہ ہیں ۔ یہ  جو تاریخ میں سنہرہ باب حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی نے رقم کی وہ روحانی فیض حضور سیدنا سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا  تھا۔

1 comment:

  1. ASSLAAMU ALAIKUM JANAAB AAP KI YE POST PADH KAR DIL KO SUKOON MILA ME FOLORUNGA AAP KA PEJ AUR AAP KI AUR KON KON SI WEBSITE HEN WO BHI INAYAT FARMAYEN

    ReplyDelete