Tuesday, 29 December 2015

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 12

سجادگی
معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سید عبدالرزاق نورالعین نے اپنی زندگی ہی میں اپنے صاحبزادگان کو تبرک اور مختلف علاقوں کی ولایت عطافرمادی تھی اور ان کے لئے مقام تجویز کردیئے تھے تاکہ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ ادا کرسکیں،چنانچہ بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن کو اپنا جانشین بنایا اور ولایت کچھوچھہ عطا کیا دوسرے صاحبزادے سید شاہ حسین کو ولایت جونپور عطا کی تیسرے صاحبزادے سید شاہ احمد کو ولایت جائس رائے بریلی اور چوتھے صاحبزادے سید شاہ فرید کو ولایت بارہ بنکی عطا کی اس طرح آپ نے تمام صاحبزادگان کو علاقے عطافرمائے لیکن اپنا جانشین سید شاہ حسن کو ہی بنایا ۔ہماری اس بات کی حیات محدث اعظم ہند کے مصنف کی اس تحریر سے ہوتی ہے وہ  لکھتے ہیں :
"حضرت نورالعین پاک نے ہر وجہہ اور ہر لحاظ سے اکبریت حسن کا خاص خیال کھتے ہوئے اپناقائم مقام خلیفہ اور سجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر کو بنایا اور خدمت آستانہ و جاروب کشی بھی ان کے سپرد فرمائی جیساکہ مولانا صالح رودولوی خلیفہ سید شاہ کرم اللہ اشرف جائسی اپنے رسالہ"خلافت نامہ اشرفیہ" میں تحریر کرتے ہیں " چنانچہ حضرت نورالعین وقت وفات خدمت جاروب کشی بخلف اکبر سپردند وسید حسین رابجون پوروسید احمد رابجائس وسید فرید رابردولی فرستادہ وصیت بجاآورند" اس بیان سے یہ حقیقت رونما ہوگئی کہ حضرت حاجی الحرمین الشریفین شیخ الاسلام والمسلمین سید عبدا لرزاق نورالعین کی وفات کے بعد درگاہ کچھوچھہ شریف کے تنہا واحد حقیقی اصلی اور جائزسجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں تھےسید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں کے عہد سجادگی میں ان کے چھوٹے بھا ئی سید شاہ حسین ایک عرصے کے بعد ولایت جونپور سے درگاہ کچھوچھہ شریف بغرض چلہ کشی پہنچےاور پھر مستقل سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایاولایت جونپور چھوڑنے کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے کہ"چوں بست ودومواضع ازبعض معتقدین بفتوح دارندحصہ سید حسین خلف ثانی نیز درآن قراریافت بدیں وجہہ تعلق سکونت کچھوچھہ اختیارکردند"۔   (خلافت نامہ اشرفیہ)
بہرحال !  سید شاہ حسین ثانی جب کچھوچھہ شریف پہونچے تو بڑے بھائی کی محبت و شفقت نے انہیں پناہ دی اور مستقل رہنے کی اجازت بھی ،ان کی بے نفسی وسیع القلبی اور والہانہ تعلق خاطر کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ خود تمام حقوق رکھنے کے باوجود تنہامراسم عرس اداکریں اور چھوٹے بھائی کے نام کا چراغ روشن نہ ہو لہذا انہوں نے بکمال اخلاص و محبت اپنے چھوٹے بھائی سید شاہ حسین کو 27محرم الحرام کی تاریخ برائے ادائیگی مراسم عرس مرحمت فرمائی اور اپنے لئے 28 محرم الحرام یعنی عرس حضرت مخدوم صاحب کی خاص تاریخ محفوظ رکھی اس طرح سید شاہ حسین خلف ثانی کو سید شاہ حسن  خلف اکبر سرکار کلاں کے بخشندہ یا مرحمت کردہ حقوق سجادہ نشینی حدوددرگاہ کچھوچھہ شریف ملے ورنہ نورالعین نے انہیں ولایت جونپور کا سجادہ نشین نامزد فرمایا تھا۔           (حیات محدث اعظم ہندصفحہ 13)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام والمسلمین مخدوم الآفاق حاجی الحرمین الشریفین سید عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن ہی درگاہ کچھوچھہ شریف  کے سجادہ نشین تھے لیکن جب ان کےچھوٹے بھائی سید شاہ حسین ولایت جونپور چھوڑکر کچھوچھہ شریف آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں جگہ دی بلکہ مراسم عرس بھی تقسیم کرلیں چنانچہ 27 محرم الحرام کو سید شاہ حسین درگاہ شریف میں مراسم عرس ادا کرتے ہیں اور اصل تاریخ یعنی 28 محرم الحرام کو سید شاہ حسن جو درگاہ شریف کے سجادہ نشین تھے مراسم عرس ادا فرماتے تھے۔
الحمدللہ عزوجل ! آج بھی مراسم عرس  28 محرم الحرام  کو  مخدوم زادہ  قائد ملت حضرت علامہ  الشاہ سیدمحمدمحمود اشرف اشرفی الجیلانی صاحب قبلہ مدظلہ العالی والنورانی بمقام خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکاں کلاں (گراؤنڈ جامع اشرف )  درگاہ کچھوچھہ شریف میں ادا  فرماتے ہیں ۔ 

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 11

کرامات
ایسے تو آپ  سے قسم قسم کے کرامات ظہور میں آئے مگر یہاں پر چندکرامتوں کا ذکر  کر تا ہوں  کہ امیر تیمور کے سرداران  افواج میں ایک شخص امیر علی بیگ تھے ۔ ترکستان کے سفر میں حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ  ان کے یہاں مقیم ہوئے ۔ حضرت کے کمالات فقر کو دیکھ کر یہ ایسے مست ہوئے کہ ترک امارت و ملازمت کرکے حضرت کے خدمتی بن کر سفر و حضر میں ساتھ رہنے لگے تھے ۔ فوجی آدمی علوم ظاہر سے بے بہرہ تھے لیکن عشق الہی کی آگ جو حضرت کے فیض صحبت سے سینے میں فروزاں ہوگئی تھی اسرار لدنی کھلنے لگی ۔ یہ حضرت کے ساتھ بارہ سال تک رہے ایک روز حضرت محبوب یزدانی  نے حضرت نورالعین  پاک سے فرمایا کہ امیر علی مدت سے ریاضت کررہے ہیں ان پر کوئی تصرف نہیں کیا گیا تم آج توجہ ڈالوتاکہ مجھے تمہارے تصرف کا اعتماد ہو ۔ حضرت عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ نے تعمیل ارشاد کے لئے مراقب ہوئے  تھوڑی ہی دیر نہ گزری تھی کہ امیر علی کے چہرے پر جلال درویشی اور آثار ولایت نمایاں ہونے لگے اور ان پر خروش کی کیفیت پید ا ہوگئی اور اسی عالم کلمات توحیدان کی زبان پر جاری ہوگئے ۔ اتفاقاً اس وقت حضرت کی محفل میں چند علماء بھی موجود تھے ۔ آپنے ان سے فرمایاکہ امیرعلی جاہل محض ہے مگر اس وقت معرفت الہی کے سمندر میں غوطہ زن ہے آپ حضرات جس علم  وفن کے مشکل سوالات اس سے کریں میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ صحیح جواب دیگا۔ چنانچہ علماء نے بے حد مشکل سوالات ہیئت  و منطق کے پوچھے اور امیر علی تسلی نے بخش جواب دیا ۔حضرت نے امیر علی بیگ کو اس واقعے کے بعد ابوالمکارم کا خطاب مرحمت فرمایا ، یہ کچھ دنوں اور حضرت کے ساتھ تھے جب ریاضت و مجاہدے سے قابلیت پیدا ہوگئی تو حضرت نے انہیں خلافت سے ممتاز فرمایا اور خراسان کا صاحب ولایت بناکر بھیجا۔ (محبوب یزدانی)
قتلغ خان خاص محل نے  مخدوم زادہ حضرت نورالعین پاک  کی نسبت کوئی بات جو ان کی دل ماندگی کا سبب بنی اور قتلغ خاں کو یہ توفیق نہ ہوئیں کہ کدورت رفع کرتا۔ ایک رات اپنےمکان کے بالا خانے پر سویا ہوا تھا کہ تین قلندر چھری ہاتھ میں لیے ہوئے داخل ہوئےاور قتلغ خاں کو پکڑ لیا اور کہتے جاتے تھے کہ ہاں تو  تو نے حضرت نورالعین کے بارے میں ناروا بات کہی ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ وہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے فرزند ہیں ۔ قتلغ خاں نے معذرت کی اور ان قلندروں کے ہاتھ سے رہائی پائی صبح ہوئی تو قتلغ خاں حضرت قاضی حجت کو درمیان میں ڈال کر حاضر خدمت ہوا اور ابتدا میں بہت سے عذر پیش کیے۔

وصال مبارک
حاجی الحرمین الشریفین  مخدوم الآفاق سید عبدا لرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی  7 ذی الحجہ                      872؁ ہجری میں وصال فرمایا  اور آپ کا مزار حضور مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بجانب مشرق ہے جو زیارت گاہ خاص و عام ہے ۔ (مراۃ الاسرار صفحہ 1178)

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 10

شادی
جب سلطان اشرف جہانگیر سمنانی اپنے فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ظاہری و باطنی تربیت فرما چکے اور انہیں علوم و فنون سے آراستہ فرمادیا تو آپ کو ان کی شادی کی فکرہوئی۔چنانچہ آپ نے ہندوستان کے سادات گھرانوں میں ان کے لئے تلاش شروع کی اور خانوادوں کے نسب کی تحقیق بھی کی آپ کے پاس پہلے سے ہی سادات کے شجرے تھے  کیونکہ آپ نے ایک کتاب" اشرف الانساب " کے نام سے تحریر کی تھی  جس میں ہندوستان میں رہنے والے تمام سادات کے شجروں کی تحقیق کی تھی۔ایک روایت متواترہ یہ بھی ہے کہ حضرت سلطان بحر وبر محی الدین اورنگ زیب  عالمگیرغازی و مجاہد فی سبیل اللہ مجد د قرن عاشر قد س سرہ نے اسی نسب نامہ کے بنیاد پر حضرات سادات کرام کے وظائف مقررکئے اور جاگیریں پیش کیں۔
 حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے حضرت مخدوم حاجی نورالعین قد س سرہ کا نکاح " سادات ماہرو" میں کرایا ۔ مکتوبات اشرفی میں سادات ماہرو کے بارے میں تذکرہ ہے کہ یہ لوگ نہایت صحیح النسب ہیں جو کشفاق و کشلاق سے ہندوستان آئے ۔آپ کی اہلیہ محترمہ  کانام  بی بی سلطانہ خاتون تھا جن کا مزارشریف آستانہ حضور مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی کے پورب اور دکھن جانب نیر شریف سے کچھ دور پر واقع ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔

فرزندان
زبدۃ الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ کے پانچ صاحبزادگان گرامی ہوئے سب کی پیدائش حضرت مخدوم  سمناں رضی اللہ عنہ کے حیات ظاہری میں ہوئی ۔
1.      سیدشاہ شمس الدین قد س سرہ
2.    سید شاہ حسن قد س سرہ
3.   سید شاہ حسین قدس سرہ
4.   سید شاہ احمد  قدس سرہ
5.   سید شاہ فرید  قد س سرہ
یہ پانچوں صاحبزادے علم و فضل اور تقوی وپرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے کیونکہ ان کی تربیت دو عظیم ہستیوں یعنی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اور مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین  کی زیر نگرانی ہوئی تھی جب تربیت کرنے والے ایسے ہوں تو پھر تربیت پانےوالوں کے مقام کا اندازہ کون کرسکتا ہے ۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے وصال سے قبل ان صاحبزادگان کو تبرکات عطافرمائے اور ان کے متعلق بشارتیں دیں  لطائف اشرف میں ان کا ذکر موجود ہے ۔
ابوالفضائل حضرت مولانا نظام الدین غریب یمنی قد س سرہ لکھتے ہیں کہ"آپ نے نورالعین کے فرزندوں کو طلب کیا  پہلے شیخ شمس الدین کو جن کی عمر اٹھارہ سال تھی اور جو علمی اعتبار سے عالم بن چکے تھے ۔ سبز رنگ کاجامہ عنایت فرمایا اورفرمایا کہ یہ فرزند علوم کا  بے حد حصہ رکھتا ہے لیکن اس کی عمر کم ہوگی ۔ اس کے بعد شیخ حسن کو طلب کیا اور انہیں تبرک عطاکرنے کے بعد فرمایا کہ حسن بہ احسن الوجود بڑے اطاعت گزار ہوں گے پھر شیخ حسین کو طلب کیا اور تبرک عنایت کیا  پھر فرمایا کہ یہ ہمارے حسین ثانی ہیں  ان سے ایک بڑا خاندان ظہور میں آئے گا اس کے بعد شاہ احمد کو طلب کیا تبرک عنایت کیا اور فرمایا کہ یہ احمد ثانی ہیں ان کا نام احمد نبی اکرم ﷺ کے اسم گرامی پر ہے اور صفات مصطفوی سے موصوف ہیں ان کی اولاد بزرگ اور سخی ہوگی  اس کے بعد شیخ فرید کو طلب کیا اور تبرک عطا کیا پھر فرمایا اے فرید ثانی ! آؤ تم سے اللہ تعالیٰ کی محبت اوردوستی کی خوشبو آتی ہے۔ پھر شیخ قتال کو جو نور پور کے ترکوں میں سے تھے تبرک عنایت کرکے فرمایا کہ میں تمہیں عبدالرزاق کے جملہ فرزندوں میں سے خیا ل کرتا ہوں تمہیں چاہیئے کہ فرزندگی کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ اس کے بعد دریتیم کو طلب کیا اور تبرک عنایت فرمایا پھر ارشاد ہو ا یہ ہمارے فرزند شیخ کبیر کی یادگار ہیں جو مجھے عزیز ہیں  چنانچہ جو شخص حلقے میں داخل ہوا سے چاہیئے کہ ان کا حلقہ بگوش ہو جس طرح میں نے عبدالرزاق کے فرزندوں کو خزانہ الٰہی اور گنج تامتناہی سپردکیا ہے  اسی طرح انہیں اور ان کی اولاد کے سپر د کیا ہے بشرطیکہ وہ قناعت اختیار کریں اس وقت ہم ان کے اسباب معاش کے ذمہ دار ہوں گے اس کے بعد فرمایا جو ہمارے فرزندوں کا دوست ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو ہمارے فرزندوں کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ہمارادشمن وہ جملہ خاندان چشت اوردودمان اہل بہشت کا دشمن ہے۔  پھر یہ شعر پڑھا
دوست  دار   خاندان  اولیاء
دوست  دار  اولیاء   و   اصفیاء
دوست دار  اولیاء   و انبیاء
دوست دارحضرت عالی خداست
جو خاندان اولیاء کو دوست رکھنے والا ہے و ہ اولیاء کا دوست ہے اور اولیاء انبیاء کو دوست رکھنے والاخداکا دوست ہے۔ (لطائف اشرفی 60/677)
ان کے دشمنوں کے سروں پر  فرشتوں کی تلوار لٹکی رہے گی۔   ( حیات مخدوم الاولیا صفحہ  36)
یہی وجہ ہے کہ جس نے بھی  ان سے عداوت کی  خائب و خاسر ہوا اور ہوتا رہے گا ۔ ان شاء اللہ  عزوجل
حضرت نظام یمنی کی اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نورالعین کے صاحبزادگان کو نہ صرف یہ کہ تبرکات عطافرمائے بلکہ انہیں بشارتیں بھی دیں اور ان کے حق میں دعائیں فرمائیں اور وہ تمام بشارتیں اور دعائیں حرف بہ حرف پوری ہوئیں ۔ نورالعین کے بڑے صاحبزادے کے متعلق آپ نے فرمایا تھا کہ علم کا بے حدحصہ رکھتا ہے لیکن ا س کی عمر کم ہوگی  چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ جید عالم ہوئے لیکن کم عمری میں انتقال کرگئے ان سے چھوٹے حضرت مخدوم شاہ حسن تھے ، فرزنداکبر کی وفات کے بعد آپ ہی فرزنداکبر کہلائے اور مخدوم الآفاق حضرت سید عبدالرزاق نورالعین جیلانی نے اپنی کنیت ابوالحسن قرار دی ۔
حضرت محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ نے مخدوم نورالعین کی سجادگی و جانشینی کے اعلان کے بعد حضرت شاہ حسن کو اپنے پیرو مرشد حضرت سلطان المرشدین مخدوم علاؤالحق والملۃ والدین گنج بنات چشتی نظامی رضی اللہ عنہ متوفی800 ہجری کا مرحمت کردہ خرقہ مبارکہ عطافرماکر زبان گوہر فشاں سے فرمایا:
"حسن ماء احسن الوجوہ واکبر الوقوہ"
 حضرت شاہ حسن تعلیم و تربیت اور علم شریعت حضرت نورالعین کی حسن توجہ سے مکمل ہوئی اور حضرت نورالعین نے حضرت شاہ  حسن کی ہر وجہ سے اکبریت کا خاص خیال فرمایا اور اپنا خلیفہ کیا اور اپنے بعد سجادہ نشین بنا یا اور آستانہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشر ف جہانگیر سمنانی کی خدمت اور جاروب کشی سپر د فرمائی ۔
صاحب حیات مخدوم الاولیا فرماتے ہیں کہ مولانا شیخ حضرت عبدالرحمن چشتی صابری عباسی العلوی امیٹھوی (مصنف مراۃ الاسرار) 1034 ہجری میں حضرت غوث العالم محبوب یزدانی کے آستانہ عالیہ پر حاضری دی اس وقت ان کو سید شاہ حسن سرکارکلاں نے خلافت دی اور حضرت غوث العالم کا وہ خرقہ تبرک جو حضرت مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت سے حاصل ہوا تھا مرحمت فرمایا ۔ انہوں نے کچھوچھا مقدسہ میں حاضری کے تقریباً دس برس بعد 1045 ہجری میں مراۃ الاسرار کی تصنیف شروع کیاور بقول ان کے عہد شاہ جہانی میں تکمیل کی بلکہ صحیح تر یہ ہے کہ اپنی آخری زندگی تک اس میں اضافے کئے ۔ ( حیات مخدوم الاولیا ء صفحہ 39)

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط9

فنا فی الشیخ
آپ کی زندگی بھی محبوب یزدانی حضرت سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی کی زندگی سے  بہت مشابہت رکھتی ہے کہ حضرت نے اپنے والدین کنبہ اور خاندان سلطنت  ودولت کو چھوڑ کر اپنی پوری زندگی اللہ کےلئے وقف کردی ۔ اسی طرح حضرت اولاد غوث الاعظم  سید عبدالزراق نورالعین  الحسنی الحسینی نے بھی والدین عزیز ورشتہ دار اور گھر بار  سب کچھ چھوڑ کر حصول معرفت خداوندی کے لئے حضرت محبوب یزدانی کا دامن تھام لیا اور پوری زندگی ان کی خدمت میں رہ کر منزل سلوک طے کیا ۔
 صاحب "سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ودینی خدمات"  فرماتے ہیں کہ سید عبدالرزاق نورالعین  کو اپنے پیر ومرشد سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی سے بڑی محبت تھی کہ آپ نے اپنے آپ کو ان کے رنگ میں رنگ لیا ۔ علم و فضل تقویٰ و پرہیزگاری ، روحانیت ، تبلیغ دین ، توکل و استغناء، صبر ورضا ، استقامت اور عادات و اطوار ، اخلاق و کردار غرض یہ کہ ہر چیز میں وہ اپنے پیر و مرشد کے نقش قدم پر نظر آتے ہیں اور حقیقت میں اگر ان دونوں بزگوں کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بڑی مطابقت ومماثلت  نظر آتی ہے ۔سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی ابتدائے شباب میں سلطنت ، گھر بار عزیز ، اقارب اور وطن کو چھوڑ کر ریاضت ومجاہدے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ۔ پوری دنیا کی سیا حت کی مختلف بزگوں سے فیض حاصل کیا اور پھر مخلوق خدا کو فیض پہونچایا۔ اسی طرح سید عبدالرزاق نورالعین بھی بارہ سال کی عمر میں والدین ، عزیزو اقارب ، گھر باراور وطن چھوڑ کر سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ساتھ ہوگئے  اور طلب معرفت وروحانیت کے لئے مجاہدے کئے ۔ دنیا کی سیاحت کی اور پھر ساری زندگی مخلوق خدا کو فیض پہونچایا ۔دونوں علم وفضل اور روحانیت میں بے مثال تھے ۔ دونوں نے حصول معرفت میں بڑی محنت و ریاضت کئے ۔ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے ایک سو بیس سال کی عمر پائی اسی  طرح حضرت سید عبدالرزاق نورالعین  کی عمر بھی بوقت وصال ایک سو بیس سال تھی ۔ حقیقت میں وہ فنافی الشیخ تھے ۔
فنافی الشیخ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو اپنے شیخ کی ذات میں فنا کردے  یعنی شیخ کی عادات و اطوار ، اعمال و افعال کو اس طرح اپنائے کہ لوگوں کو مرید پر شیخ کا گمان ہونے لگے۔ یعنی وہ مرید کو دیکھ کر یہ سمجھے کہ شاید شیخ ہی آرہاہے ۔ درحقیقت مرید صادق وہی ہے جو شیخ کے طریقے پر چلے ۔
(سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی ودینی خدمات صفحہ 218)
مقامات صوفیہ میں لکھا ہے کہ"طریقت میں کسی طرح بھی یہ جائز نہیں کہ مرید اپنے پیر کے علاوہ کوئی مسلک رکھے یا کسی طرح بھی اپنے مرشد کے عقیدے اورحرکات و سکنات کے خلاف چلے۔( مقامات صوفیہ صفحہ 101)
معلوم ہوا کہ مرید صادق وہی بن سکتاہے جو اپنے شیخ کے طریقے کو اپنائے اور اس کا ہر حکم بجالائے اور اپنے آپ کو شیخ کی ذات میں فنا کردے ۔ یہ تمام اوصاف مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین میں بدرجہ کمال موجود تھے ۔یہی وجہ تھی کہ محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی حیا ت و تعلیمات اور اوصاف و کمالا ت کا پورا عکس نورالعین کی ذات میں موجود تھا درحقیقت وہ اپنے پیر و مرشد کی شخصیت کا آئینہ تھے۔

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 8

نور العین سے محبت:
          سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کو سید عبدالرزاق نورالعین سے بڑی محبت تھی اسی محبت کی وجہ سے آپ انہیں "نورالعین" یعنی آنکھوں کا نورکہا کرتے تھے۔ آپ اکثر فرماتے تھے کہ میں تمام بزرگوں سے جو کچھ حاصل کیا وہ فرزند نورالعین کو بخش دیا آپ کو اپنے نورالعین پر فخر تھا فرماتے تھے کہ جس طرح سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہی سلطان نظام الدین اولیاءبدایونی دہلوی قد س سرہ النورانی  کو حضرت امیر خسرو پر فخر تھا اسی طرح مجھے اپنے نورالعین پر فخر ہے اور میں اس عطیہ الٰہی پر قیامت کے دن فخر کروں گا ۔
ایک مرتبہ فرمایا کہ نورالعین نے بیس سال تک پوسیدہ طور پر میرے  وضو کا بچاہوا پانی پیا ہے اور میں نے خدا سے دعاکی ہے کہ اس آبِ حیات کے آثار و برکات فرزندنورالعین اور ان کے فرزندوں میں ابدالآباد تک قائم رہیں بلکہ ان میں زیادتی ہوتی رہے۔
          ابوالفضائل حضرت علامہ نظام الدین یمنی قد س سرہ  لطائف اشرفی میں فرماتے ہیں کہ ایک بارشب میں حضرت غوث العالم  محبوب یزدانی کے کانوں میں آواز آئی ۔
اے اشرف! تم نے دنیا میں ہماری نعمتوں میں سے سب سے اچھی نعمت کیا پائی؟
غوث العالم محبوب یزانی نے جواب دیا : الٰہی  تونے مجھے بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں جن کا شکریہ ادا نہیں ہوسکتا لیکن جن نعمتوں پر مجھے فخر ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت میں بھی جن پر فخر ہوگا وہ چار ہیں:
1.       یہ کہ  تونے مجھے امت محمد یہ صلی ا للہ علیہ والہ وسلم میں پیدا کیا اورغلامان بارگاہ مصطفوی  اور جاروب کشان بارگاہ نبوی میں جگہ عطا عنایت فرمائی۔
2.    یہ کہ شیخ علاؤ الدین گنج نبات پنڈوی  کی ملازمت سے مجھے مشرف فرمایا۔
3.   یہ کہ تونے اپنی محبت سے میرے قلب کو معمور کیا  یعنی دولت عرفان الہی اور شوکت لامتناہی سے سرفراز فرمایا ۔
4.   یہ کہ دریائے حقائق کے دوموتی مجھے عطا فرمائے ایک فرزند عبدالرزاق  نورالعین اور دوسرے شیخ کبیر جونپوری  ان شاء اللہ ان دونوں کے اندر ولایت اور آثار ہدایت قیامت تک باقی رہیں گے۔ (لطائف اشرفی ، نورالعین صفحہ 19)
اس روایت  سے پتہ چلا کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کو نورالعین سے کتنی محبت تھی کہ وہ عطیہ الٰہی  سمجھتے تھے اور ان کے حق میں دعا فرماتے تھے اور ان پر  فخرکرتے تھے لطائف اشرفی  اور مکتوبات اشرفی میں حضرت کی  بہت سی دعائیں اوربشارتیں  ملتی ہیں جو آپ نورالعین اور ان کی اولاد کے بارے میں کیں ہیں جیساکہ حضرت فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے ہمیں دوانعامات عطافرمائے ہیں ایک سَر اور دوسراسِر  یہ دونوں فرزند عبدالرزاق پر نثار ہوگئے۔  (لطائف اشرفی56/619)
مرا  ازجہاں  دار  دا را ئے  دیں
سَرے بود  موہوب و سِر برسرش
 ز دریائے  وجدان  درفشاں
نثارے شد آں ہر دور برسر ورش
مجھے حقیقی جہاں دار اور دین کے بادشاہ ( اللہ تعالیٰ)کی طرف سے سَر اورسِر دو چمک دار موتی  وجدان کے دریا سے عطاہوئے ، یہ دونوں موتی سرور (عبدالرزاق نورالعین)  پر نثار ہوگئے۔
حضرت نورالعین فرماتے ہیں کہ " ایک روز قدوۃ الکبری ٰ پر عجیب و غریب کیفیت طاری تھی اصحاب کے بارے میں بشارت انگیر اور مسرت آمیز باتیں کررہے تھے ، جب میری باری آئی تو بہت غور کیا آخر میں خوش ہوکر فرمایا ، ہرگز ہرگز میں نے اپنا سب کاسب تم پر نثار کردیا ہے اور کوئی چیز تم سے بچا کرکے نہیں رکھی ہے ۔
اے فرزند نورالعین ! میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہاری اولاد کے لئے دعاکی ہے ہمیشہ مسعود اور مقبول رہیں اور تمہاری اولاد میں دستور کے مطابق ایک فرد رجال الغیب میں سے اور ایک مجذوب ہوگا بلکہ ایک فرد پیدا ہوگا جس میں میرے احوال پیوست ہونگے۔ جب میں نے یہ سب احسان سن لیے تو میں نے اپناسر حضرت کے قدموں میں رکھ دیا ۔ حضرت ایشاں (مخدوم سمناں رضی اللہ عنہ ) نے میرے سر کو اٹھایا اور بغل میں لے لیا ۔ ( لطائف اشرفی 56/624)
مرادر حالتے دریاب دریاب
کہ  دریا  بیم  دریا  بیم  گوہر
مجھے سمندر کی حالت میں سمندر (جانیں) کیونکہ گوہر پانے والا میر ے سمندر سے گوہر پاتا ہے
درخت بارو رہم سایہ  داریم
بجنسباں   تابر یزد   شاخ من بر
ہم پھل دار درخت بھی ہیں اسے تھوڑا سا ہلاتا کہ میری شاخ سے پھل بکھریں۔
لطائف اشرفی کی اس عبارت سے پتہ  چلتا ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے سید عبدالرزاق نورالعین اور ان کی اولاد کے بارے میں بہت سی بشارتیں دی اور ان کے حق میں دعائیں فرمائیں در حقیقت یہ ان کی دعاؤں ہی  کی نتیجہ ہے کہ نورالعین کی اولاد میں ایسے ایسےجید علماء کرام  ، کبار صوفیاء اور مشائخ عظام  پید ا ہوئے جنہوں نے اپنے علم و عمل تقویٰ  و پرہیزگاری اور روحانیت کی وجہ سے دنیا   بھر میں نام پیدا کیا اور عظیم علمی وروحانی و دینی خدمات انجام دیں  ان  شخصیتوں میں حضرت شیخ مبارک بودلے  (پیرومرشد حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی و ملک محمد جائسی ) حضرت مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی جیلانی عرف مُلاَّ باسو جائسی قدس سرہ ، مُلاَّ علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی  قدس سرہ(استاذ مُلاَّنظام الدین فرنگی محلی ) ، حضرت مولانا سید باقر اشرفی جیلانی ملقب بہ فاضل جائسی قدس سرہٗ، حضرت مولانا امام اشرف اشرفی جیلانی قدس سرہ، حضرت مولانا سید امین اشرف جیلانی  جائسی  قدس سرہ، حضرت سید ابومحمد اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ( پیرومرشد محبوب ربانی )، ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی  حضرت ابو احمد محمد علی حسین اشرفی المعروف  اعلی حضرت اشرفی میاں قد س سرہ،  عالم ربانی سلطان الواعظین سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ ، تاج الاصفیا ء حضرت علامہ سید مصطفی اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ،اشرف الاولیا حضرت علامہ سید مجتبیٰ اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ، حضرت مولانا حکیم نذر اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ، حضرت سید محمد المعروف محدث اعظم ہند  قد س سرہ،مخدوم ثانی حضرت علامہ سید محمد کفیل اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ، نعیم الاولیا ء حضرت علامہ نعیم الدین جائسی اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ،  سید حضور سرکارکلاں سیدمختار اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ، مجاہد دوراں سید محمد مظفر حسین  قد س سرہ،  قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر اشرف الاشرفی الجیلانی قد س سرہ،  حضرت مولانا سید شا ہ عبدالحئ اشرف  ہؔوش قد س سرہ، امیر ملت سید امیر اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ، شہید راہ مدینہ حضرت علامہ سید مثنیٰ انور اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہ،اشرف العلما ء سید محمد حامد اشرف اشرفی قد س سرہ ،  عارف باللہ قدوۃ الاصفیاء مولانا الحاج سید شاہ محی الدین عرف اچھے میاں قد س سرہ، مولانا سید معین الدین اشرف اشرفی الجیلانی  قد س سرہ، حکیم الملت  سید شاہ قطب الدین اشرف   اشرفی الجیلانی قد س سرہ، شیخ اعظم سید شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی قدس سرہ اور اشرف المشائخ حضرت ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی قدس سرہ کے نام قابل ذکر ہیں  یہ وہ شخصیات ہیں جن کی علمیت وروحانی اور تبلیغی خدمات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی دعائیں نورالعین کی اولاد کے بارے میں کس طرح پوری ہوئیں اور ان کا اثر آج بھی ان کی اولاد میں باقی ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک باقی رہے گا اور جتنے شیوخ اس خانوادۂ اشرفیہ  میں ہیں کسی دوسرے خاندان میں نہیں ہیں۔

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 7

شیخ الاسلام کا لقب:
زبدۃ الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین کا ایک لقب "شیخ الاسلام بھی ہے جو اپنے وقت کے جلیل القدربزرگ  حضرت شیخ قثیم  ترکستانی  قد س سرہ النورانی  نے آپ کو عطا فرمایا تھا آپ ترکستان کے مشائخ میں سے تھے اور طریقت میں ممتاز مقام رکھتے تھے ۔وقت کے عظیم بزرگوں نے آپ سے کسب فیض کیا جن میں بانئ سلسلۂ نقشبندشیخ المشائخ قطب العالم خواجہ خواجگان حضرت خواجہ سید شاہ  محمد  بہاء الحق والدین المشتہر نقشبند بخاری الحنفی قد س سرہ اور بانئ سلسلہ اشرفیہ تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ آپ ترکستان کے مشائخ سے ہیں اور خواجہ احمد یسوی کے خاندان سے ہیں جو غوث العالم محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی کے حقیقی نانا تھے۔
غوث العالم  محبوب یزدانی سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب فرزند سید عبدالرزاق نورالعین کی ملاقات آپ سے کرائی تو ان کی طرف ظاہری وباطنی توجہ فرمائی اور ان کے حسب نسب کے متلق دریافت کیا میں نے عرض کیا کہ سادات جیل سے ہیں اور حضرت غوث الثقیلن شیخ عبدالقادر جیلانی قد س سرہکی اولا د سے ہیں میں  نے انہیں اپنا فرزند بنا لیا ہے اور سبھی مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے فرمایا کہ ہم نے بھی قبول کیا کہ تمہارا فرزند ہمارا فرزند ہے حق تعالیٰ سے ہم نے دعا کی ہے کہ یہ اپنے زمانے کے شیخ الاسلام ہوں گے ۔( لطائف اشرفی15/603)
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ نے عرض کیا جب آپ اتنی بڑی  بشارت  اس فرزند کے لئے فرماتے ہیں تو برکت کے واسطے ان کے ہاتھ کو اپنے دست ارادت کے نیچے لے لیجئے  ۔ حضرت نے قبول کیا اور اپنی توجہ باطنی سے مالامال کردیا بعد اس کے خدمت بابرکت حضرت شیخ خلیل اتا ( متوفی 782) قد س سرہ  جو صاحب شریعت و طریقت تھے اور ولایت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے  صاحبزادہ سید عبدالرزاق نورالعین کو حاضر کیا  ۔ حضرت شیخ نے دعائیں دیں اوراوصاف ظاہری و باطنی سے مشرف فرمایا اس کے بعد جب میں سید عبدالرزاق نورالعین کو  قطب العالم خواجہ خواجگان حضرت خواجہ سید شاہ  محمد  بہاء الحق والدین نقشبند بخاری الحنفی قد س سرہ    کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا  تو انہوں نے بہت ہی زیادہ  توجہ و عنایات سے مبذول فرمائیں  اس کے بعد  جن جن بزرگوں کے پاس  پہونچے انہوں نے صاحبزادہ کے حق میں  بکمال توجہ باطنی و مہربانی فرماتےہوئے  لقب شیخ الاسلام کے ساتھ سب نے ملقب کیا۔ 

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 6

نورالعین کا لقب:
سید عبدالرزاق نورالعین کے کئی القابات ہیں ۔نورالعین ، قرۃ العین، شیخ الاسلام، قدوۃ الآفاق ، مخدوم الآفاق ،زبدۃ الآفاق وغیرہ لیکن ان میں "نورالعین " ہی مشہور ہے۔ سید سلطان اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی رضی اللہ عنہ آپ سے بے حد محبت فرماتے تھے اور آپ کو محبت سے نورالعین کہا کرتے تھے  مکتوبات اشرفی میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا کہ" لوگ صلب (نطفہ) سے اولاد پیدا کرتے ہیں میں نے عبدالرزاق کو آنکھوں سے پیدا کیا  پھر یہ شعر پڑھا:
چہ نورِدیدہ ام ازنورِدیدہ
کہ نورِدیدہ باشد نورِدیدہ
میں نے اپنی آنکھوں کےنور سے نوردیکھا جو میری آنکھوں کا نور بن گیا
حضرت نے اظہار مسرت اور برگزیدہ  ہونے کے سبب سید عبدالرزاق کو "نورالعین " کے خطاب سے مخاطب فرمایا ۔
حضرت  سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی رضی اللہ عنہ بزگوں کی اولاد کا ذکر آیا تو فرمایا کہ روحانیت ان بزرگوں کی اپنے اولادوں کے ساتھ رہتی ہے ۔ بہترین سعادت اس گروہ کی تعظیم ہے کیونکہ اولاد کی تعظیم سے انکی اجداد کی تعظیم ہوتی ہے جیساکہ حضرت نے فرمایا کہ جب فقیر جونپور میں گیا شیخ عبداللہ زاہد ی میرےملنے کو آئے ان کی عجیب حالت تھی کوئی نشے کی  چیز کھائے ہوئے تھے اور نشے کے عالم میں تھے ۔ ایسی بے ادبانہ باتیں کرنے لگے۔
 یہاں پر جامع لطائف اشرفی نے حضرت کے بجائے خود واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت  کی خاطر نازک ناخوش ہوئی اور یہاں  تک نوبت پہونچی   کہ حضرت مخدوم سمناں کے چہرۂ مبارک پہ آثار جلال کے پیدا ہوئے ، چاہتے تھے کہ ان پر گرم نگاہ ڈالیں اور اپناتصرف دکھلائیں ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ روحانیہ پاک حضرت شیخ فرید الدین زاہدی ظاہر ہوئے اپنی ڈاڑھی کو پکڑ کر فرمانے لگے کہ یہ میر ا فرزند ہے میری روح اس کے ساتھ ہے اور اس کا قصور معاف کیجیئے۔ (لطائف اشرفی 56/662)
اسی طرح حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ    جب روم میں مقیم تھے ۔ شیخ الاسلام روم کے دل میں خدام والاکی طرف سے مخالفانہ خیال پید ا ہوا اور پس پشت حضور پر نکتہ چینی کی ۔ رکاب حضرت اقدس کے ہمراہیاں سے کوئی بات خلاف شریعت  نہیں صادر ہوتی تھی مگر وہ لوگوں سے یہی بیان کرتے تھے کہ فلاں شخص سے ایسی اورایسی باتیں صادر ہوئیں۔ اکثر اس قسم کی غیبت کی مجلسیں قائم کیں ۔ حضرت کے بعض معتقد لو گ اس خبر کو گوش مبارک تک پہونچاتے تھے مگر حضور یہی فرماتے تھے کہ خیر کہنے دو جلد تنبیہہ ہوجائے گی۔
ایک دن حضرت نماز فجر پڑھ کر وظیفہ میں مشغول تھے کہ اچانک شیخ الاسلام ننگے سر آئے اور معافی مانگتے ہوئے قدم مبارک پر سر رکھ دیا ۔
حضور نے فرمایا کہ یہ تو بتاؤ کہ یہ تمہاری معذرت کس سبب سے ہے۔
عرض کیا حضور پہلے معاف فر مادیں اس کے بعد مجھ پر جو گذرا ہے عرض کروں ۔ مجھ پر جو گزرا ہے کہ خدانہ کرے کسی مخلوق پر گزرے ۔ میں اپنے کوٹھے پر تھا  اور جاگ رہا تھا ۔ کوٹھا ایسا تھا کہ جس میں چیونٹی کا بھی گزر نہ تھا ۔ یکایک دس آدمی ننگی تلواریں لئے ہوئے پہونچےاور میری نسبت کہا کہ یہی وہ شخص ہے جو میرے سید اشرف جہانگیر سمنانی  کی غیبت کرتا ہے ۔ابھی ا س کا سر تن سے جدا کروں گا۔ مجھ کو زمین پر دے مارا اور چھاتی پر چڑھ گئے۔ مجھ کو ذبح کرنا چاہتے تھے کہ اسی وقت ایک سفید داڑھی والے بزرگ ایک طرف سے آئے اور مجھ  کو ان لوگوں کے ہاتھ سے ہزاروں خوشامدیں کرکے چھڑایا اور فرمایا کہ آپ لوگ چلے جائیں کیونکہ اس کے گناہ کی معافی میں نے حضرت سے مانگ لی ہے۔
وہ لوگ چلے گئے تب وہ بررگ مجھ پر بہت بگڑے کہ مردان خدا کے متعلق ہرگز ہر گز نکتہ چینی  نہیں کرنا چاہیے۔ فوراً جاؤ اور حضرت کے قدم پاک کو اپنا سرتاج بناؤ۔ میں نے تمہاری خطاکی معافی حضور سے مانگ لی ہے۔
حضرت مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تیرا دادا مرد باخدا تھا ۔ یہ اسی کی روحانیہ دیکھی گئی ہے جس نے تیری شفارش کی ۔ اب کسی درویش کے خلاف خیال بھی نہ کرنا ۔  (لطائف اشرفی )
حضرت مولانا الحاج سید شاہ ابوالفتح مجتبی اشرف اشرفی الجیلانی قد س سرہفرماتے ہیں مجمع البحرین   حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی بمبئی میں اپنے ایک مرید کے مکان پر تشریف فرما تھے اس کی دوکان نچلے منزل میں تھی ۔ دوران قیام اس مرید   کی دوکان پر ایک درویش آیا اور دوکاندار سے باالجبر کوئی چیز مانگنے لگا۔ دوکاندار نے کہا کہ نہیں دونگا۔ فقیر نے کہا اگر نہیں دوگے تو تمہارے مکان میں آگ لگ جائے گی ۔ وہ گھبرایا  ہوا حضور کی خدمت میں آیا اور ماجرا بیان کیا۔ حضور نے فرمایا مت دو۔ دوکاندار کی ہمت ہوئی وہ فقیر دکان پرموجود تھا ، پھر بولا جلد دو ورنہ آگ  لگادوں گا۔ پھر حضورکی خدمت میں حاضر ہوا اور فقیر کی ضد بیان کی ۔ فرمایا مت دو، پھر جب دوکان پر آیا ، فقیر بولا، اگر نہیں دیتے ہو تو بس آگ لگنے ہی والی ہے۔ دوکاندار دوڑا ہوا حاضر ہوا اور فقیر کی فقیرانہ شان کی بات عرض کی ۔ حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی  قد س سرہ نے آنکھیں بند فرمائیں پھر فرمایا ، دیدو ، دیدو اور دیکھا کہ کونے میں آگ لگ رہی ہے دکاندار مرید نے عرض کیا حضور یہ کیا بات تھی کہ دوبار آپ نے فرمایا  مت دو۔ اور تیسری بار فرمایا دیدو۔ اس میں کیا راز ہے ؟؟؟
جواب میں فرمایا کہ پہلی مرتبہ میں نے دیکھا تو فقیر باالکل پھوٹا دھول تھا ، دوسری مرتبہ اس کے پیر کو دیکھا تو وہ بھی  ویسا ہی تھا لیکن تیسری مرتبہ اس کے پیر کے پیر کو دیکھا تو وہ کچھ تھا ۔ اس نے دعا کی کہ میرے مولیٰ مرید کے مرید کی عزت و لاج کی بات ہے ، گوکہ مریداس لائق نہیں ۔ لیکن میری دعاء قبول فرما، اور مرید کی لاج رکھ  غرض  کہ فقیر کے پیر کے پیر کے سبب میں نے تمہیں تیسری مرتبہ کہہ دیا کہ اسے دے دو ،دے دو۔ (  حیات  مخدوم الاولیا ء محبوب ربانی صفحہ 254)
 غوث العالم محبوب یزدانی تارک السلطنت حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری حیات اور موت یکساں ہے ۔ میں اپنی حیات وممات میں اپنی اولادوں کے ساتھ ہوں ۔ وہ ہرگز ہرگز مجھ سے جدا نہیں ہے۔اس کے ساتھ آپ نے یہ نظم پڑھی :
کسے   کو   اولیاء  را  مردہ  داند
پس آں کس مردہ است آں زندہ باشد
جو شخص اولیا ء کو مردہ خیال کرتاہے پس وہی شخص مردہ ہے اور اولیاء زندہ رہیں گے۔
برآراز  دل  چنیں تصویر  باطل
کہ  الحق  اولیا  پایندہ  باشد
اے شخص ! ایسے باطل تصور کو دل سے نکال دے کہ الحق اولیاء پایندہ رہیں گے
خدایم  داد  عیش  جا ودانی
کہ  ہم  در مردگی  با زندہ باشد
مجھے اللہ تعالیٰ نے عیش جاودانی عطاکیاہے ، موت میں بھی زندہ لوگوں کے ساتھ رہوں گا۔
منم   در   مردگی  ہمراہ  زندہ
بہر جا روح من زایندہ باشد
میں موت میں زندہ کے ساتھ رہوں اور میری روح ہرجگہ ظاہر ہوگی۔
بہر جا  خواہیم ہستیم  حاضر
کہ  حاضر غائبم  دانندہ باشد
ہم جہاں چاہیں گے موجود ہوں ہمارے غائب سے حاضر کی حقیقت سمجھ میں آئے گی۔
اشرف  از  زندگی  مردانہ مردہ
بہر جا  خواہدش آئندہ باشد
اشرف زندگی سے مردانہ وار گیا ہے اسے جس جگہ سے بلاؤ گے آ جائے گا۔
(مراۃ الاسرار صفحہ 1177 ، لطائف اشرفی 56/232)

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط 5

ترتیب و تالیف
لطائف اشرفی جو سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی کے مجموعہ ہے اس کا اکثر حصہ آپ سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل ہے ۔ حضرت نورالعین نے حضرت محبوب یزدانی کے آخری ایام کے مکتوبات کو جمع کرکے ایک خاتمہ کے ساتھ تحریر فرمایا یہ تصوف و معرفت کے مسائل پر مشتمل ہے ۔ آخر میں آ پ نے تاریخ عالم بادشاہوں کے احوال نیز علماء کرام کے تراجم اور شعراء کے اشعار کے تراجم اختصار کے ساتھ تحریرفرمایا ہے ۔ اس ترتیب و تالیف میں تاریخ جہاں کشائی " جامع التاریخ " اور تاریخ گزیدہ" سے بھی انتخاب کیا ہے ۔ طبقات  ملوک کے تذکرہ میں آپ نے " طبقات ناصری" اور "تاریخ ابراہیمی" سے زیادہ اقتباسات اخذ کئے ہیں اور حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کے آبا ء و اجداد میں جو ملوک گذرے ہیں ان کے تذکرۃ میں حضرت علاؤ الدولہ سمنانی کی تاریخ ابراہیمی سے انتخابات ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ "خاتمہ" آپ کی نثر نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔


شاعری

آپ  ایک باذوق شاعر تھے اور شعر گوئی میں آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی ۔آپ کا کوئی دیوان تو نہیں ہے کچھ قطعات اور منقبت کے اشعار بمشکل تمام دستیاب ہوسکے ہیں جن سے آپ کی قادر الکلامی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ چند اشعار نمونے کے طور پر تحریر کئے جاتے ہیں ۔ جو حضرت غوث العالم محبوب یزدانی  تارک السلطنت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی  قد س سرہ النورانی کی منقبت میں لکھے گئے ہیں :

سپہر منقبت خورشید اشرف
کہ می باابد دازو نہ چرخ  داوای
جہانگیر جہاں پیر ولایت
محیط جہاں را تا  سروپائ
مدار نقطہ دور سکندر
کہ آمد از
نفس نہ خرخ دروای

حضرت سیدشاہ ابوالمظفر علی اکبر بلبل  قد س سرہ کی شان  میں یہ  اشعار تحریر فرمائے ہیں  :

جہاں دار دارائے خورشید تیغ
ابوالفتح جمشید گیتی  کشائے
گل  بوستانِ سیادت نہال
مل دوستانِ نقابت فزائے
شہ بوالمظفر جہاں دار دیں
کہ  گیتی گرفتہ  بشمشیر رائے
چوں خورشید از تیغ نصرت گہر
ز آئینہ ملک گرفتہ بشمشیر رائے
زئے  آفتاب  سپہر ھدی
کہ ہرذرہ رانوربخش از ضیائے
ز آثار    شاہان    گیتی   فروز
ہمہ  دارد و کرد  دیگیر  نہائے
کم  از ذرہ   بود  عبدالرؔزاق
چو خورشید شد اشرؔف رہنمائے

واضح کردوں کہ سلسلۂ نسب مادری  سلطان سید اشرف جہانگیر سمنا نی السامانی  قدس سرہ  کا سلطان اسماعیل سامانی سے اس طرح ملتا ہے کہ حضرت سید شاہ  ابوالمظفر علی اکبر بلبل جو کہ نقباء ملک عراق سے تھے موصوف دختر نیک اختر سلطان اسماعیل سامانی فرخ زاد بیگم نام کو حبالۂ نکاح میں لائے ۔ ان سے سید شمس الدین محمود نوربخشی قدس سرہ  پیدا ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے مرتبۂ ولایت میں نقباء کا درجہ عطاکیا تھا ۔ سلطان اسماعیل سامانی کو اپنے نواسہ کی ولایت اورکمال پر فخر و ناز تھا ۔ اکثر ملکی مہمات میں بدعاء حضرت سید شمسؔ الدین محمود نوربخشی کے سلطان اسماعیل سامانی کو فتح و نصرت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلطان اسماعیل سامانی کے غلام سبگتین اور الپتگین دونوں تھے ۔ سبکتگین کے بیٹے حضرت سلطا ن محموؔد غزنوی تھے جن کا دارالسلطنت غرنین تھا اور ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوکر گروہ کفرکو شرف اسلام سے مشرف فرمایا ۔ آپ کے بھانجےسید سالار مسعؔودغازی ابن سیدساہؔوسالار علوی نے جہاد کرنے ہوئے مقام بہرؔائچ شریف میں آکر شہادت پائی ۔