Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 08

وعظ ونصیحت
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  قد س سرہ نے جامع مسجد بغداد میں خلیفہ اور وہاں کے اہل  معرفت و مکرمت کے بے حد اصرار پر وعظ فرمایا ۔ اس مجمع میں تقریباً پانچ ہزار اربابِ علم و فضل اورسرکاری امیرو سردار موجود تھے ۔ قاری صاحب نے سورۂ یوسف تلاوت کی تو حضرت پر ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی ۔اسی کیفیت میں آپ نے تقریر شروع کی اور اس وعظ میں معرفت وعرفان کے اس قدر نکات بیان فرمائے کہ سارے مجمع میں وجد کی کیفیت طاری ہوگئی اور گریہ وزاری کرنے لگے ۔ خاص طور پر آپ نے آیت پاک  لولا ان رابرھان ربہ (اگراپنے رب کی پختہ دلیل نہ دیکھ لیتے) کی تفسیر میں ایسی ایسی عاشقانہ باتیں بیان کیں کہ سارے مجمع پر ان کا اثر ہوا یہاں تک کہ اکثر لوگ اپنے گھروں کی طرف دوڑے یا جنگل کی جانب نکل گئے۔
ایک بزرگ نے (جنہیں لوگ شیخ قطب متقی کہتے تھے )کہ میری عمر سو سال کے لگ بھگ ہے ، بہت سے واعظین مختلف ملکوں اور اطراف کے یہاں آئے اور وعظ کی مجلس میں تقریریں کی لیکن کسی نے ایسی خوبی و لطافت سے لبریز تقریر نہیں کی جیسی حضرت نے کی۔
خلیفۂ بغداد بھی ایک ہزار اشرفی اور ایک گھوڑا جس کی زین اور لگام سونے کی تھیں لے کر حاضر ہوا لیکن آپ نے قبول نہیں فرمایا ۔ دوسرے دن پھرخلیفہ حاضر خدمت ہو ا اور بےحد اصرار کیا تو آپ نے قبول کیا۔ (لطائف اشرفی 46/397)
جس زمانے میں حضرت مدینہ طیبہ میں روضۂ منورہ پر حاضر تھے ۔ حضرت شیخ احمد یسوی کے سلسلۂ یسویہ میں داخل ترکوں کی ایک جماعت بھی وہاں حاضر تھی ۔ انہوں نے آپ کی تعریف کی اور ان کے مشائخ نے آپ سے وعظ کہنے کے لئے اصرار کیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور کامیا ب ہوئے۔ اس زمانے میں حضرت ترکی زبان جانتے تھے لیکن مہارت زیادہ نہ تھی  چونکہ ی مجلس ترکوں نے منعقد کی تھی یہ بھی لازم ہواکہ ترکی زبان میں تقریرکی جائے ۔ حضرت نے اسی کے مطابق ترکی زبان میں تقریر کی اور ایسےفصیح و بلیغ لہجے میں حقائق و معارت بیان فرمائے کہ اہل زبان کو رشک ہونے لگا۔ جتنے مشائخ اس مجلس وعظ میں موجود تھے سب کو ذوق باطنی حاصل ہوا اور ہرشخص ترکی میں یہ  کہتا ہوا آیا " پی حیف فیلندسی بوسید وانداق مجلی اتیت مگر کورمادی را۔"
تقریباً سو ترک حضرت کے ہمراہ روانہ ہوئے اور خدمت و ملازمت پر کمر بستہ ہوئے ۔ یہ لوگ ایسی محنت سے خدمت بجا لاتے جیسی برگزیدہ خلفاء اور نہایت عاقل حضرات کرتے تھے، چنانچہ انہوں نے تھوڑی سے مدت میں اپنی اپنی ہمت کےمطابق مقصد حاصل کرلیا اور چہرۂ مقصود ان پر ظاہر ہوگیا۔
ایک روز ایسا ہوا کہ حرم شریف کے شیوخ اصرار کرنے لگے کہ حضرت شیخ حرم حضرت نجم الدین اصفہانی کی موجودگی میں وعظ کہیں ۔ آپ مجبور ہوگئے کیونکہ شیخ حرم کے حکم بجالانے کو سوا کوئی اور چارہ نہ تھا چنانچہ مجلس ترتیب دی گئی ۔ آپ نے عربی زبان میں تقریر کی ۔ اہل مجلس کو اس قدر ذوق و شوق حاصل ہو ا کہ اسے بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ حتی کہ بعض عرب جو صحرا اور بستی سے آئے تھے شریک مجلس ہوئے ۔ ان پر اس قدر وجد و حال طاری ہوا کہ لوگ تعجب کرتے تھے کہ یہ نہایت عجیب واقعہ ہے کہ صحرا میں رہنے والے تقریر سے اس قدر مثاثر ہوئے۔

علمی خدمات
سید اشرف جہانگیر سمنانی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور برگزیدہ صوفی کے علاوہ صاحب تصانیف کثیرہ  بزرگ تھے آپ بیک وقت مصنف ، مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد، مصلح، محدث، فقیہ، محشی، مؤرخ، مفکر،نعت گوشاعر، منجم اور شارح تھے۔ بیشتر علوم و فنون میں کامل مہارت رکھتے تھے۔
مجمع البحرین   حاجی الحرمین الشریفین اعلیٰ حضرت قدسی منزلت مخدوم الاولیاء  مرشدالعالم محبوب ربانی ہم شبیہ غوث الاعظم حضرت سید شاہ ابواحمد المدعومحمد علی حسین اشرف اشرؔفی میاں الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی اپنی مشہور ومعروف کتاب صحائف اشرفی میں لکھتے ہیں:
حضرت مولانا ابوالفضائل نظام الدین یمنی جامع لطائف اشرفی یعنی ملفوظات حضرت محبوب یزدانی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خداداد علم تھا کہ روئے زمین میں جہاں تشریف لے گئے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے ۔ بہت سی کتابیں آپ کی عربی ، فارسی ، سوری، زنگی، اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں جو تصنیف فرمائیں جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علماء جلیل القدر کا یہ قول تھاکہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف ہوئے ہوں گے۔
 حضرت سلطا ن سید اشرف  جہانگیر سمنانی السامانی  قد س سرہ خود فرماتے تھے کہ میر ے سلطنت میں میرے خاندان سادات نوربخشیہ سے ستر حافظ قرآن اور قاری فرقان ایک زمانے میں  موجود تھے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے حضرت محبوب یزدانی کی کہ پانچ پشتوں میں سلطان ابن سلطان اور سید ابن سید اور ولی ابن ولی اور حافظ ابن حافظ اور قاری ابن قاری اور عالم ابن عالم برابر نسلاً بعد نسلاٍ حضرت کے ہوتے ہوئے چلے آئے۔ چنانچہ چند  کتب کے اسمائے مندرجہ ذیل ہیں:

تصانیف جلیلہ
تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ
ê                        ترجمہ قرآن کریم    ( بزبان  فارسی)
ê                        رسالہ مناقب اصحاب کاملین و مراتب خلفائے راشدین
ê                        رسالہ غوثیہ
ê                        بشارۃ الاخوان 
ê                        ارشاد الاخوان
ê                        فوایدالاشرف
ê                        اشرف الفوائد
ê                        رسالہ بحث وحدۃ الوجود
ê                        تحقیقات عشق
ê                        مکتوبات اشرفی
ê                        شرف الانساب
ê                        مناقب السادات
ê                        فتاوائے اشرفی  (بزبان عربی)
ê                        دیوان اشرف
ê                        رسالہ تصوف و اخلاق (بزبان اردو)
ê                        رسالہ حجۃ الذاکرین 
ê                        بشارۃ المریدین
ê                        کنزالاسرار
ê                        لطائف اشرفی   (ملفوظات سید اشرف سمنانی)
ê                        شرح سکندرنامہ
ê                        سرالاسرار  
ê                        شرح عوارف المعارف
ê                        شرح فصول الحکم  
ê                        قواعد العقائد
ê                        تنبیہ الاخوان
ê                        رسالہ مصطلحات تصوف
ê                        تفسیر نور بخشیہ
ê                        رسالہ در تجویز طعنہ یزید
ê                        بحرالحقائق
ê                        نحو اشرفیہ
ê                        کنزالدقائق
ê                        ذکراسمائے الہی
ê                        مرقومات اشرفی
ê                        بحرالاذکار
ê                        بشارۃ الذاکرین
ê                        ربح سامانی
ê                        رسالہ قبریہ
ê                        رقعات اشرفی
ê                        تسخیرکواکب
ê                        فصول اشرفی
ê شرح ہدایہ (فقہ)
ê حاشیہ بر حواشی مبارک
حوالاجات
معارف سلسلہ اشرفیہ  صفحہ 11
حیات غوث العالم   صفحہ 74 تا 77
صحائف اشرفی حصہ اول 115 تا 118
سید اشرف جہانگیر سمنانی  علمی دینی اور روحانی خدمات  صفحہ 173 تا 206
ان کتب میں ایک کتاب "اخلاق و تصوف   (بزبان اردو)   بھی ہے محققین کے مطابق یہی اردو نثر کا پہلا رسالہ ہے  پروفیسر حامد حسن قادری اپنی کتاب " داستان تاریخ اردو میں تحریر فرماتے ہیں ۔"اب تک تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمال ہند میں  اٹھاریوں صدری عیسوی( بارہویں صدی ہجری) سے پہلے تصنیف و تالیف  ونثر کو کوئی وجود نہ تھا یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چارسو برس پہلے اردو کی تصانیف کا آغاز ہوا  ۔ اب سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ تصوف کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہوگیا اور ثابت ہوگیا کہ دکن میں اردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند دکن میں امیرخسرؔو اور سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نظم ونثر کی بنیاد ڈالی۔    ( داستان تاریخ اردو صفحہ 24)
 ان تمام شواہد سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی السامانی قدس سرہ صرف ایک روحانی شخصیت ہی نہیں تھے بلکہ علمی وادبی میدان میں بھی منفرد مقام رکھتے تھے۔ آپ نے تبلیغ اسلام کے سلسلے میں اہم کردار اداکیا وہاں علمی وادبی لحاظ سے بھی عظیم خدمات انجام دیں اور تاریخ کا ایک حصہ بن گئے لیکن افسو س کہ اتنا عرصہ کزرنے کے بعد بھی اس عظیم شخصیت پر وہ تحقیقی کام نہ ہوسکا جو ہونا چاہئے تھا اگرچہ مختلف حضرات نے آ پ کی سیرت پر لکھا لیکن صرف کشف و کرامات ہی پر اکتفا کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ آپ کو صرف ایک ولی کامل کی حیثیت  سے جانتے ہیں ۔ 

No comments:

Post a Comment