شاخ پورب سے پچھم کی طرف
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ ایک دیہاتی موضع بھڈونڈ تشریف لائے
آبادی کے باہر ایک باغ تھا اس میں حضرت کا قافلہ اترا۔ قرب وجوار کے لوگ آپ کی
زیارت کے لئے حاضر ہونے لگے اس گاؤں کے زمیندار ملک محمود تھے وہ بھی آکر زیارت سے
مشرف ہوئے اور پابوسی کی سعادت حاصل کی ۔ حضرت نے بھی ان پر بڑی شفقت فرمائی ۔
دوپہر کو جب قیلولہ کو وقت آیا تو آپ ایک سایہ دار درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ (حالانکہ
آپ کا خیمہ موجود تھا) زوال آفتاب سے جب سایہ ہٹنے لگا اور آپ پر دھوپ آنے والی ہی
تھی کہ ایک شاخ نے گھوم کر آپ پر سایہ کرلیا اور دھوپ سے آگے آگے وہ شاخ گھومتی
رہی اور آپ پر سایہ کرتا رہا ۔ جب دوپہر ڈھلی اور حضرت فریضۂ ظہر ادا کرنے کے لئے
اٹھے تو وہ شاخ سایہ کرتے کرتے پورب سے پچھم کی طرف گھوم چکی تھی۔ (محبوب یزدانی)
پایا ب ہے اتر چلو !
ساتن
پورہ کا ایک واقعہ لوگ نسلاً بعد نسلاٍ بیان کرتے آئے ہیں کہ حضرت جب اس موضع کے
قریب پہونچے تو راستے میں ایک جھیل کو حائل دیکھا ۔ قریب ہی کچھ بچے اپنے جانور چرارہے تھے ۔ خدام نے ان سے پوچھا
کہ جھیل میں کتنا پانی ہے؟
بچوں نے ازراہ شرارت کہدیا کہ پولی پولی یعنی
پایاب ہے ۔
حضرت نے
فرمایا کہ پانی اگر پایا ب ہے تو اتر چلو
چنانچہ حضرت مع اصحاب و خدام کے پانی میں اتر گئے ۔ جھیل کافی چوڑی
اور کہیں کہیں بہت گہری تھی لیکن زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ (کہ پایا ب ہے اتر چلو) کا اثر کہ جھیل شروع سے آخر تک پایا ب ہی
رہی۔
چرواہوں
نے حضرت کی جو یہ کرامت دیکھی تو بھاگے ہوئے
گھر گئے اور یہ خبر پہنچائی۔آنا ًفاناً یہ خبر پوری بستی میں پھیل گئی۔راجہ
ساتن جن کے نام سے یہ گاؤں بسی تھی انہوں نے بھی یہ کرامت سنی تو یہ خیال ہواکہ کانوں
نے جن خبر کو سنی انہیں آنکھوں سے بھی دیکھوں ۔ چنانچہ فوراً ہی کچھ سپاہی ساتھ
لئے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پہلی ہی نظر میں رعب ولایت اور جلال کرامت نے
ان کے دل کی دنیا بدل دی اور بااخلاص حلقہ بگوش اسلام ہوکر غلاموں کی فہرست میں
اپنا نام لکھا دیا ۔ اپنے اور اپنی اولاد کے لئے دعا کی استدعا کی ۔
حضرت نے
ان کی اولا د میں برکت اور آنے والی نسل کے خوشحالی کی دعا فرمائی چنانچہ اس وقت سے لیکر آج تک ان کا خاندان (جواب الحمد للہ بہت وسیع ہے) دودمان اشرفیہ کے
حلقۂ ارادت میں چلے آرہے ہیں اور اپنے اخلاص و نیازمندی میں مشہور ہیں۔( محبوب یزدانی)
بادشا ہ سے سرکشی کرے گا
جس
زمانے میں حضرت دکھن کے سفر پر تھے تو
کالپی میں قیام کیا ۔ یہ جگہ آپ کے اصحاب کو پسند آئی ۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں
عرض کیا کہ اگر کچھ حصہ یہاں قیام فرمائیں تو دل کی آسودگی اور جسمانی
توانائی کا سبب ہوگا۔
آپ چند
روز کالپی میں بسر فرمائیں( یہاں ) آپ کے منتخب اور مقرب اصحاب میں سے ایک صاحب کے
دماغ میں رعونت پیدا ہوگئی اور ان سے ایک فعل سرزد ہو اجو طریقت کی تباہی کا موجب
ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا ، مقام حیرت ہے کہ اس علاقے کی آب و ہوا اس طرح کی ہے کہ
ایسا مخلص مرید ایسے مذموم فعل میں ملوث ہوجائے جو باعث تباہی ہو ۔ اس کے بعد چند
مبارک کلمات فرمائے کہ یہ ایسا علاقہ ہے کہ جو شخص بادشاہ کی طرف سے یہاں سردار
مقرر کیا جائے گا وہ بادشا ہ سے سرکشی کرے گا۔
ہاتھ پر ولایت کا داغ
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ جب اجودھیا تشریف لائے اور حضرت
مولانا الشیخ شمس الدین صدیقی فریادرس کی
خانقاہ میں قیام فرمایا ۔ شیخ شمس الدین
نے اہتمام مہمانداری کی حد کردی ۔ حضرت کو شوربا پسند تھا ۔ عقیدت کیش مرید نے اس
کو خود پکایا اتفافقیہ ان کا ہاتھ جل گیا ۔ انہوں نے اس پر پٹی باندھ لی ۔ جب
دسترخوان بچھانے کے وقت وہ حضرت کے سامنے آئے تو آپ نے پوچھا : شمس الدین یہ پٹی
کیسی ہے ؟ وہ چپ ہی رہے لیکن حاضرین میں سے کسی نے واقعہ بتادیا ۔ آپ نے تاسف کیا
اور فرمایا کہ فرزند شمس الدین اور قریب آؤ اور پھرزخم پر آپ نے اپنا لعاب دہن
لگادیا جس سے زخم کی شوزس فوراً جاتی رہی اور جلد ہی زخم بھی اچھا ہوگیا اور
فرمایا کہ تمہارے ہاتھ پر ولایت کا داغ لگایا گیا ہے۔ (محبوب یزدانی)
No comments:
Post a Comment