تاریکی شب ظاہرہوگئی ہے
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ
کا یہ معمول تھا کہ بسبب شب بیداری اخیر وقت
میں نماز عشاء ادافرماتے ۔ یعنی نماز ختم کرتے کرتے تہجد کا وقت آجاتا تھا
۔ ایک مرتبہ سفر حج میں جارہے تھے اور اس مرتبہ جہاز میں چھ مہینے کامل گزر گئے
ایک دن جہاز طوفان میں آگیا اور تین شبانہ
روز طوفان میں رہا ۔ ہمرائیان حضرت بیحد پریشان بدعا ہورہے تھے اور محبوب یزدانی
بھی دعاو استغفار میں مشغول تھے ۔ آپ کی دعا سے اللہ سبحانہ تعالی نے جب
اس طوفان سے نجات بخشی ۔ چوتھی شب کو حضرت نوافل اور اوراد معمولی بعد مغرب
سے فارغ ہوکر ذکر معارف اور حقائق میں تیسرا حصہ رات کا گزر گیا تھا ۔ تین شبانہ
روز کے جگے ہوئے تھے ۔ حضرت کو نیند آگئی تھی یہاں تک کہ صبح صادق طلوع ہوگئی اور آسمان پر شفق نمایا ں
ہوگئی ۔ جب لوگوں نے حضرت سے عرض کیا کہ صبح ہوگئی۔
آپ قد س
سرہ نے فرمایا کہ " اللہ تعالے اپنے
فقیروں کی محنت ضائع نہیں کرتا ۔جہاز کی چھت پر جاکر دیکھو ابھی صبح نہیں ہوئی ہوگی"۔
یہ بات زبان مبارک سے نکلتےہی سب نے دیکھا کہ تاریکی شب ظاہرہوگئی ہے۔
حضرت
محبوب یزدانی نے اٹھ کر استنجا کیا اور وضو کرکے نماز عشاء پڑھی ۔ خدام والا بھی
سب کے سب جلدی جلدی وضو کرکے سنت اور فرض اور نوافل مع اوراد معمولی حضرت کے ساتھ
ادا کی ۔ اس کے بعد حضرت نے کچھ آرام کیا ۔ ایک گھنٹہ کے بعد صبح صادق ہوئی ۔ سب
نے باجماعت حضرت کی اقتدا میں نماز فجر ادا کی۔
اس روز
سے حضرت محبوب یزدانی نے اپنے اصحاب اور خدام سے ارشاد فرمایاکہ آئندہ نماز عشاء تاخیر
کرکے کوئی نہ پڑھےاور حضرت نے اس کے بعد ہمیشہ تاحیات اپنی کبھی نماز عشاء
میں تاخیر نہیں فرماتے تھے۔
سبحان
اللہ ! کیا شان اقدس حضرت محبوب یزدانی کی تھی ۔ فی الحقیقت مردان ابوالوقت کے تابع وقت ہوتا ہے نہ کہ وہ تابع وقت کے ہوتے ہیں
ایک دل میں ہزاروں تغیر ظاہر کرسکتے ہیں ۔ عوام شان مردان الوقت کو نہیں سمجھ سکتے۔
نزول آفات ہونے والی ہے
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ فقیر مع خیمہ
و خرگاہ اور قلندران ہمراہی کے ایا م سرما میں یمن میں پہونچا ۔ ایک مسجد میں اترا
اور وہاں کے صلحا ء سے ملے اور چند دن قیام کیا ۔ شب برأت کے وقت ہم سب بیٹھے تھے
کہ حضرت ابولغیث یمنی میرے پاس تشریف لائے اورفرمانے لگے کہ برادر اشرف امسال یمن
میں نزول آفات اس قدرہونے والی ہے جس کی برداشت نہیں ہوسکے گی۔
میں نے
کہا کہ فقیر کو بھی اپنے کشف سے یہی ظاہر ہوا ہے ۔ آپ نے بیان کرنے میں سبقت کی
ورنہ میں خود بیان کرتا اور فرمایا کہ ہم اور آپ دونوں محبت کے ساتھ یہ باراپنے
اوپر اٹھائیں۔
کہا بہت
خوب۔
دونوں
بزرگ نے بتوجہ باطنی اپنے اوپر بار اٹھا لیا ۔
صبح کے
وقت دونوں بزرگوں کی یہ حالت تھی کہ چہرۂ زرد آنکھیں سرخ تین دن تک یہی حالت رہی
کہ طاقت جنبش نہ تھی۔
میں اشرف محبوب یزدانی کا مرید ہوں
حضرت
سید شاہ عماد الدین اشرف عرف لکڑ شاہ رحمۃ اللہ علیہ جو صاحب جذب کامل بزرگ تھے آپ علیہ الرحمہ فرماتے تھے کہ ملک دکن کے ایک مولوی حضرت سلطان سید
اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ مرید
ہونے سے کیا فائدہ ہوتاہے؟
آپ نے جواب
نے جواب دیا کہ جب قبر میں جاؤگے اس وقت تم کو خود معلوم ہوجائے گا۔ مولوی نے عرض
کیا کہ قبر میں کیا ہوگا نکیرین سوال کریں گے ۔ جاہلوں کو جواب دینا مشکل ہوگا ۔
عالم کو کیا دقت ہوگی جو ماہر زبان عربی ہے۔ اس بات پر چند سال گذرے کہ ایک دن
حضرت محبوب یزدانی وضو فرمارے تھے ۔آب وضو ہاتھ میں لے کر ایک طرف چھینٹا مارا اور
یوں فرمایا کہ " کیوں نہیں کہتا میں اشرف محبوب یزدانی کا مرید ہوں۔"
یہ حالت
دیکھ کر حاضرین کو حیرت ہوئی مگر کوئی دریافت نہ کرسکا۔ مگر نازپروردۂ آغوش دولت
جہاگیر حضرت حاجی الحرمین شیخ الاسلام سیدابوالحسن عبدالرزاق نورالعین الحسنی
الحسینی قد س سرہ النورانی نے عرض کیا کہ حضور نے یہ خطاب کس طر ف فرمایا
اور پانی کیوں چھڑکا۔
فرمایا
فرزند تم کو یاد ہوگا کہ ایک مولوی ملک دکن سے آیاتھا اور مجھ سے سوال کیا تھا کہ
بیعت کرنے کا مدعا ہے ۔ میں نے اس کو جواب دیا تھا کہ قبر میں اس کا حال معلوم
ہوگا۔ اس کو اپنے علم کا غرور تھا ۔ آج وہ شخص دنیا سے انتقال کرگیا ۔ قبر میں
نکیرین نے جب سوال کیا اس کا سارا علم بھول گیا اور جواب نہ دے سکا۔ مجھ پر میرے
رب نے اس کا حال روشن کر دیا ۔ مجھ کو خیال ہوا کہ میرا ملنے والا مبتلائے عذاب ہو
اس لئے میں اس کے منہ پر آب وضو چھینٹا مارااور کہا کہ کیوں نہیں کہتا کہ میں اشرف
محبوب یزدانی کا مرید ہوں ۔ جب اس کی زبان میرے مرید ہونے کا اظہار ہوا تو ملائکہ
نے رحم کیا اور کہا کہ یہ ان کا مرید ہے جن کے واسطے ملکوت سمٰوات پر فرشتوں کے
ندا کی تھی کہ اشرف محبوب یزدانی ہے ۔ غرض
کہ وہ غذا ب سے بچ گیا۔
سبحان
اللہ ! کیا شان اولیا ء اللہ کی ارفع و اعلیٰ بتائی گئی ہے۔
غوث کچھوچھہ حضرت علامہ صوفی سید شاہ گل میاںمصباحی
اشرفی الجیلانیدامت برکاتہم
العالیہ فرماتے ہیں :
کرنی ہے تیرے عشق میں عمر بسر جو ہو سو ہو
تیرے نثار اشرفا جان و جگر جو ہوسو ہو
راہ وفا میں مٹ ہی کے پائیں گے دل کی ہم مراد
دل میں بنا لیا تیرے حسن نے گھر جو ہو سوہو
دن میں
نہ وہ قرار ہے رات میں اب نہ وہ سکوں
اپنا تو کام کر گئی تیری نظر جو ہو سو ہو
چھوڑ کے مدرسے کو ہم آگئے سوئے میکدہ
ہم نے شراب بے خودی پی لی اثر جو ہو سو ہو
اشر ؔفی گل نے پی لیا جام تیری نگاہ سے
خود کا نہ ہوش مجھے دل کی خبر جو ہو سو ہو
No comments:
Post a Comment