Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 09

شاعری
آپ کی طبیعت بےحد موزوں تھی اور شعر و شاعری سے خاص لگاؤ تھا جب آپ سمناں سے حکومت چھوڑ کر دنیا کی سیاحت کے لئے رخصت ہوئے اس وقت ان کا دیوان مرتب ہوچکاتھا الوادع  ہوتے وقت ایک غزل آپ کی زبان مبارک  پرتھی جس کے دو شعر بطور تبرک یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔
ترک  دنیا  گیر  تا  سلطان شوی                     محرم  اسرا   با  جاناں   شوی
برگذرازخواب و خور مردانہ وار                     تابراہ عشق چون مران  شوی    
(سیرت اشرف صفحہ 21)
ہرکہ او  کیمیا  اثر  باشد
گر ترا زہ یکے نظر  باشد
ترجمہ :  وہ بزرگ جو کیمیا اثر ہیں ، ان کی ایک ہی نظر تیرےلیے کافی ہے۔
ہر مِسے راکہ پیش اوبہ نہی
زالتفاتش طلائے زر  باشد
ترجمہ :  جس تانبے کو تو ان کے سامنے رکھے گا۔ ان کی توجہ سے خالص سونا بن جائےگا۔
خود شنیدی کہ شیخ نجم الدین
باپسر  وعدہ  کرد  گر  باشد
ترجمہ :  تونے خود سناہے کہ شیخ نجم الدین نے اپنے بیٹے سے قوت کا وعدہ کیا ۔
واں ندانست کان بموعداو
شیر وسگ  رابرو گزر باشد
ترجمہ :  اس نے ( بیٹےنے) نہ جانا کہ ان کے وعدے کے وجہ سے شیر اور کتے اس کے پاس آئیں گے۔
چہ نظر بودہ است شیراں را
کہ سگ ازلطف شیر نر  باشد
ترجمہ :  شیروں کی بھی کیا خوب نظر ہوتی ہے کہ ان کی نگاہ لطف سے کتاشیر نر ہوجاتاہے۔
گربہ  را گر  بود زشیر نظر
کہ  شنا ساے  ہر گہر باشد
ترجمہ :  اگریہ( اللہ کا) شیر کسی بلی پر نظر ڈال دے توہ گوہر شناس ہوجاتی ہے۔
اشرف از جاں تراب شیراں باش
کہ  ترابش بہ  از شکر باشد
 ترجمہ : اے اشرف  جان و دل سے شیران خدا کی مٹی بن جا کہ ان کی مٹی شکر سے زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
(لطائف اشرفی  34/230)

مزارات کی زیارت
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی جب صالحیہ ( دمشق) اور جبل الفتح کے مزارات کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تو پاؤں سے جوتیاں نکال لیتے تھے اور برہنہ پا زیازیارت  فرمایا کرتے تھے ۔ یہی صورت ہندوستان میں بھی تھی ۔ جب آپ دہلی، بدایوں ، سرزمین جائس، بہار شریف ، اودھ اور کڑو کے مزارات کی زیارت کرتے تھے تو ہمیشہ برہنہ پا ہوتے تھے۔ واللہ اعلم
                                                                             (لطائف اشرفی 17/689)

No comments:

Post a Comment