Tuesday, 1 December 2015

کرامات سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قسط 23

میرا نام کؔیکل ہے
غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ    باارادۂ سفر حج روانہ ہوئے ۔ حضور کے خدام مصاحبین جیسے مخدوم زادہ سید عبدالرزاق نورالعین ، حضرت شیخ ابوالوفا خوازمی ، حضرت خواجہ ابوالمکارم ، شیخ الاسلام، بابا حسین ، تنگر قلی ترکی، اور ابوالفضائل حضرت نظام الدین یمنی حضور کے ہمراہ تھے۔ بندرگاہ روم میں جب جہاز پر بیٹھے کسی قدر دریا کا راستہ طے کیا تھا کہ باد مخالف چلنے لگی۔ تین دن ہوگئے اور باد مخالف اسی طرح چلتی رہی ۔ حضرت غوث العالم کو ایک عجیب و غریب حالتِ وجد و حال کی تھی بالکل حواس کی خبر نہ تھی مگر وہ پنج وقتہ نماز اور وظائف معمولی ادافرماتے تھے لیکن ہمراہیوں کے دل میں یہ بات جمتی تھی کہ آپ آپے میں نماز ادا نہیں فرماتے ہیں بلکہ بے خودی میں ۔جہاز والوں کی بے چینی بادمخالف سے حد سے زیادہ بڑھی ۔ حضرت کی خدمت میں لوگوں نے عرض کیا ۔ آپ مسکراکر فرمایا کہ مجذوب شیرازی کا شعر پڑھنا چاہیے اور زبان مبارک سے یہ  فرمایا :۔
کشتی کشتگا نیم اے  باد شرطہ  برخیز
باشد کہ باز  بینم آں  یار آشنا را
ابھی یہ شعر زبان مبارک نہیں نکلا تھا کہ ہوا موافق چل پڑی اور جہاز تیزی کے ساتھ چلنے لگا۔ جب جہاز زیادہ راہ طے کرچکا تو حضرت نظام الدین یمنی کے دل میں یہ خطرہ پید اہوا کہ معرفت دل کی شرائط سے ایک شرط یہ ہے کہ دنیا کے ظاہر وپوشیدہ حالتوں سے خبردار ہو ۔ یہ بارہا حضرت محبوب یزدانی کے دل پر کھل چکا ہے لیکن کوئی عارف اس زمانہ میں ایسا ہے جو دریا کے رہنے والوں اور عارفوں کی خبر دے۔
اس خطرہ کے پیدا ہوتے ہی حضرت نے اس خادم کی طرف خطاب فرمایا کہ فرزند نظام الدین  ! اس قدر جان لینا عارفان خدا کے نزدیک گھاس کے جاننے سے بھی کم ہے ۔ ہم اسی گفتگومیں تھے کہ دریا کا پانی پھٹا اور ایک مرد ظاہر ہوا  اور بولا کہ اے نظا م الدین ! میں ان مردوں میں  سےہوں جو دریا میں عبادت کرتے ہیں۔
آپ نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو اور تمہارے طریقے میں مرید اور خلیفہ ہونے کا دستور ہے جیسا کہ خشکی کے اولیا میں ہے؟
بولاکہ : دریا میں ایک شہر ہے اس کو مدینۃ الاشرف کہتے ہیں  اس میں ایک بزرگ ہیں جن کو شیخ درالبحر کہتے ہیں اور اپنے کو کمترین خلفاء اشرفی سے کہلاتے ہیں ۔ دس ہزار آدمی ان کے مرید ہیں ۔ جو طالبان صادق سے ہیں ان میں سے ایک میں ہوں  اور میرا نام کؔیکل ہے۔
حضرت نظام الدین یمنی نے کہا کہ تمہارے پیر جن حضرت سے اپنے  کو نسبت کرتے ہیں وہ اسی جہاز پر تشریف فرما ہیں۔
اس بات کے سنتے ہی وہ دریا سے نکلا او رایسا لباس پہنے ہوئے تھے کہ جو پریوں کے لباس سے مشابہ تھا۔ شرف قدمبوسی سے مشرف ہوا ۔ حضرت محبوب یزدانی سے بہت سی باتیں کیں ۔ قریب ایک پہر کے باہمی گقتگو رہی ۔ حضرت کے ہمراہیوں میں سے کوئی بھی ان کی بات نہیں سمجھتا تھا۔
کرامات سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی  قسط23


اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوجا
غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ  کے علم ، نشانوں ،ماہی اور مراتب کا نزول جامع مسجد دمشق میں ہوا ۔ آپ صحن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوبصورت عورت لاچینی ترک بار سال کے بچہ کو جس کی صورت نہایت حسین تھی آکر رونے لگی ۔ جب حضرت نے دیکھا تو اس کی حیات سے ذرہ بھی باقی نہ تھا فرمایا کہ عجب کا م ہے مُردوں کو زندہ کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا اور مجھ کو ہرگز یہ کام نہیں پہونچتا۔ عورت چوں کہ بے حد بے قرار تھی ۔
عرض کیا کہ اولیاء اللہ جاں بخشی اور عطائے حیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام  کے مظہر ہیں۔  جب  اسکی بے چینی حد سے بڑھ گئی اور مایوس انتہا کو پہونچی تو حضرت غوث العالم محبوب یزدانی  نے دریائے مراقبہ میں سرڈالا اور صحرائے مشاہدہ کی راہ اختیار فرمائی ۔ تھوڑی دیر کے بعد سراٹھایا اور کیفیت وجد  کی حالت میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوجا۔ کیوں کہ تیری ماں مرے جاتی ہے۔ اس کا لڑکا کھڑا ہوا اور چلنے لگا۔گویا اس کی روح جسم سے بالکل علاحدہ تھی ہی نہیں۔ اس بات کا شہرہ دمشق میں ہوگیا۔ لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے جب ہجوم زیادہ ہوگیا تو آپ نے اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ سامان سفر باندھو اور کوچ کرو یہاں رہنے سے ہماری اوقات میں خلل واقع  ہوگا۔

سفید داغ والامرید
غوث العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ   کے ایک مرید جوہر نامی تھے ان کے بد ن میں سفید داغ ظاہر ہوا اور سب  سے بڑا بیمار سفید داغ والا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ ملک خراسان میں جس کے سفید داغ ظاہر ہوتا ہے اس کو شہر سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ جوہر نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر اجازت ہوتو ان  لوگوں کے مجمع سے باہر نکل جاؤں اور عالم گمنامی میں چلا جاؤں ۔ اگر اٹھارہ ہزارعالم کی بلائیں مجھ پر اتر تیں تو آسان معلوم ہوتیں لیکن حضور کے قدموں سے جدائی اور آپ کے کلام لطیف سننے سے محرومی کے لئے نہایت دشوار ہے۔
جوہر کے اوپر حضرت نہایت مہربانی فرماتے تھے ۔ یہ شخص بڑا قابل شاعر اور شیریں زبان تھا ۔ جب اس نے حضرت کے سامنے اپنی بے قراری ظاہر کی تو حضور کے خاظر نازک پر اس نے اثر کیا ۔
حضرت اور آپ کے ہمراہیوں کو جوہر کی آہ وازی سے رقت آگئی فرمایا تھوڑا پانی لاؤ۔ لوگ لے آئے۔ آپ نے لعاب، دہن مبارک سے نکال کر اس میں ڈال دیا ۔ جوہر نے تھوڑا سا پی لیا اور بقیہ بدن پر ملا ۔ اسی وقت سفید داغ مٹ گیا  گویا کہ تھا ہی نہیں ۔

No comments:

Post a Comment