Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 10

کرامات اولیاء  
قال الاشرف رضی اللہ عنہ : الکرامۃ ھی خارق العادۃ تصدر عن ھذہ الطائفۃ علے حسب المراد والغیر۔
غو ث العالم محبوب یزدانی مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کرامت ایک امر خارق العادۃ ہے جو صوفیہ کرام سے ان کی مراد کے مطابق اوربغیر مراد کے ظہور میں آتا ہے۔ (ملفوظات سلطان سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ 5/171)
آپ رضی اللہ عنہ سےبعض حضرات  نے سوال کیا کہ کرامات اولیاء کے اثبات میں دلائل کیا ہیں وہ کون سے دلائل ہیں جن سے کرامات ِ اولیاء ثابت ہے؟
آپ نے فرمایا کہ ہمارے امام  سیدنا امام مستغفری رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے کہ کرامات اولیاء کا ثبوت کتاب حق میں موجود ہے اور صحیح روایات اور اجماع اہل سنت و جماعت سے بھی ثابت ہے کتاب الہی میں یہ ثبوت موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًاۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَاؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِؕ اِنَّ اللہَ یَرْزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ﴿۳۷﴾
ترجمۂ کنزالایمان: جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے (بے فصل میوے جو جنت سے اترتے)  کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا بولیں وہ اللّٰہ کے پاس سے ہے بے شک اللّٰہ جسے چاہے بے گنتی دے ۔ (سورہ اٰلِ عمران 37 )
اس آیت کریمہ میں  کرامت کی حقانیت کا واضح ثبوت ملتاہے  حضرت مریم علیہاالسلام  نبی نہیں تھیں بلکہ ایک ولیہ تھیں  اور جب بھی حضرت زکریا علیہ السلام  آپ کے پاس تشریف لے جاتے  تو ملاحظہ فرماتے کہ مختلف قسم کے  پھل موجود ہوتے، گرما کے موسم میں سرما موسم کا پھل  میسر ہونا ،اور سرما کے موسم میں گرما موسم کا پھل موجود  ہونا  ، بغیر موسم کے پھل آجانا ، غیب سے رزق کا آنا  حضرت مریم علیہاالسلام کی کرامت تھی ۔
آپ فرماتے ہیں کہ صاحب کشف المحجوب ( حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری)  فرماتے ہیں کہ اللہ تعالے نے اپنی کتب سماوی ( قرآن ، زبور، تورات ، انجیل) میں آصف برخیا (وریز حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرامت کا ذکر فرمایا ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے چاہا کہ ملکہ بلقیس کا تخت بلقیس کے دربار میں آنے سے پہلے ان کے سامنےحاضر کردیا جائے تو خداوند تعالیٰ کو یہ منظورہوا کہ حضرت آصف بن برخیا کا یہ شرف مخلوق کو مشاہدہ کرائے اور اہل زمانہ پر  یہ ظاہر ہوجائے کہ اولیا ء اللہ سے کرامت کا صدور جائز ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے درباریوں سے فرمایا کہ تم میں ایسا کون ہے کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے اس کا تخت یہاں لے آئے تو
قَالَ عِفْرِیۡتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِکَ
ترجمۂ کنزالایمان:  ایک بڑا خبیث جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں۔ ( سورہ نمل 39)
  شہزادۂ محدث اعظم ہند شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ سیدمدنی اشرف اشرفی الجیلانی دامت برکاتہم العالیہ "سیدالتفاسیرالمعروف بہ تفسیر اشرفی"میں فرماتے ہیں کہ "اس جن کے نام میں اختلاف ہے... الغرض... اس کا نام ذکوان ...یا ...کوذی ... یا اصطخر تھا ۔ یہ تمام جنات کا سردار تھا ۔یہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ سرکشی کرچکا تھا ، بعد کو تابع ہوا ۔ یہ بہت بڑا قد آور تھا ۔ دور سے معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا پہاڑ ہے  ۔ تاحد نگاہ قدم رکھتا تھا  ... المختصر جن نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا ، کہ میں ابھی ابھی اکیلا ہی وہ تخت لانے والا ہوں ۔" (تفسیر اشرفی 7/112)
یہ سن کر حضرت سلیما ن علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تو اس بھی جلد چاہتا ہوں اس وقت حضرت آصف بن برخیا نے کہا :                  اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ
ترجمۂ کنزالایمان:
کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔ (سورہ نمل 40)
حضرت آصف بن برخیا حضرت سلیمان علیہ السلام کے خالہ زاد اور آپ کے وزیر اورکاتب تھے... بلکہ ... بچپن میں سلیمان علیہ السلام کی تربیت بھی انہی کے سپر د تھی جس کے ذریعہ وہ جو دعا مانگتے تھے قبول ہوجاتی تھی ۔ اللہ نے انہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی  مدد و نصرت ہی کے لئے  و نصرت ہی کے لئے پیدا کیا تھا تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر احکام کتاب کا نفاذکریں۔  (تفسیر اشرفی 7/113)
یہ سن کر حضرت سلیمان  علیہ السلام نے ناگوار کا اظہار نہیں کیا فرمایا بلکہ اس کاکام پر ان کو مامور کردیا نہ اس سے  انکار کیا اور نہ اس امر کو انہوں نے ناممکن سمجھا۔ اور یہ امر بہرحال معجزہ میں داخل نہیں تھا اس لئے آصف بن برخیا پیغمبر نہیں تھے ۔ ظاہر ہے کہ اس کو کرامت ہی سے موسوم کیا جائے گا۔
اسی طرح اصحاب کہف کا معاملہ ہے ۔ ان کا کتے کا  ان سےباتیں کرنا ، ان کا طویل مدت کے لئے سونا ، غار کے اندر ان کا دائیں بائیں کروٹیں لینا یہ  تمام امور خلاف عادت ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ معجزہ نہیں  ہیں پس اس کو کرامت ہی کہاجائے گا۔  جیساکہ حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام کی امت کے نیکوکار حضرات نے فتنہ و فساد سے بچنے کے لئے ایک غار میں پنا ہ لی اور تین سو نو سال غار ہی میں قیام پزیر رہے ۔ سورہ کہف میں اللہ سبحانہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نو اوپر۔  (سورہ کہف 25)
 اور تحقیق یہ ہے کہ تین سو برس شمسی ، قمری حساب سے تین سو نو برس دومہینے انیس روز ہوتے ہیں۔ ( تفسیر اشرفی 5/342)
اللہ تعالیٰ کےیہ بندے تین سو نو (309) سال تک غار میں رہے ان کے جسموں میں تغیر نہ آیا ، اس عرصۂدراز تک نہ انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا ، انسانی جسم کا تقاضا کھانا پینا ہے ، کوئی شخص بغیر کھائے ، پئےسالوں تو درکنار کچھ کچھ ہفتے یا مہینے نہیں گزار سکتا۔
اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت سے اصحاب کہف کی یہ کرامت ہے کہ انہوں نے تین سو نو (309) سال کاطویل عرصہ غار میں بغیر کھائے ، پیئے ، گزارا ان کے جسم سلامت رہے، اور ان کے در پر رہنے والا کتا بھی محفوظ رہا۔ سورہ کہف میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام اور حضرت خضرعلیہ السلام کے واقعہ مذکور ہے جس نے حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کیسے کیسے عجائبات دیکھے۔ اوراسی طرح سکندر ذوالقرنین کا حیرت انگیرواقعہ بھی ہے۔

احادیث مبارکہ
1.      جریح راہب کی کرامت  صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ ان پر زنا کا الزام لگا انہوں نے شیرخوار بچے سے پوچھا کہ کہ تیر ا باپ کون ہے ؟
بچہ بول پڑا کہ میر ا باپ فلاں چرواہا ہے ۔ (بخاری شریف ، مسلم شریف)
2.    حدیث شریف میں وارد ہے تین اشخاص غار کے اندر بھاری چٹان گرنے سے محصور ہوگئے ۔ جب انہوں نے اپنی اخلاص اور للہیت کا کاموں کو وسیلہ دے دعا کی  تو چٹان اپنی جگہ سے ہٹ گئی اور وہ تمام موت کے منہ سے نجات پاگئے۔
3.    حضرت اما م مستغفری  قد س سرہ نے حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب میرا انتقا ل ہوجائے تو میری میت کو اس دروازے لے جاکر رکھ دینا جہاں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم استراحت فرماہیں ۔ تم اس دروازے پر ہاتھ مارنا ۔ اگر ہاتھ مارنے سے دروازہ کھل جائے  تو اس کے اندر مجھے دفن کردینا ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انتقال کے بعد ہم نے ایسا ہی کیا ۔ مزاراقدس کے دروازے  پر ہاتھ مارکر عرض کیا کہ یہ حضرت ابوبکر صدیق ہیں آپ کے پہلومیں دفن ہونا چاہتے ہیں ۔ ہمارے یہ عرض کرتےہی دروازہ کھل گیا اور ہم کو یہ نہ معلوم ہوسکا کہ دروازہ کس نے کھولا ۔ ہم سے کسی نے کہا کہ اندر داخل ہوجاؤ اور ان کو دفن کردو ۔تمہاری عزت و توقیر کی جائی گی ۔ ہم کو یہ آواز کس نے دی اور کس نےکہا ؟ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے کسی شخص کو وہاں نہیں دیکھا۔   (لطائف اشرفی  5/177)
4.    حضرت امام مستغفری  رحمۃ اللہ علیہ حضرت مالک نے انس رضی اللہ عنہ کی اسناد کے ساتھ روایت کی ہے کہ نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں سے خطاب فرمارہے تھے ( خطبہ دے رہے تھے) کہ آپ نے اثنائے خطبہ میں فرمایا : اے ساریہ بن زہم ! پہاڑ کی طرف ہوجاؤ۔ پہاڑ کی طرف ہوجاؤ۔ جس نے بھیڑیوں کو بھیڑیں چرانے پر مقرر کیا  اس نے ظلم کیا ۔
لوگوں کو دوران خطبہ ساریہ کے ذکر سے بڑی حیرت ہوئی کہ اس وقت حضرت ساریہ   رضی اللہ عنہ عراق میں اسلامی لشکر کے ساتھ تھے لوگوں نے اس بات کاذکر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا کہ آج خطبہ میں ہم نے ( حضرت) عمر کی زبان  سے ساریہ کا ذکر منبر پر کرتے ہوئے سنااور ساریہ عراق میں ہیں۔یہ کیا بات ہوئی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارا بھلا ہو ! ان پر اعتراض نہ کرو۔ وہ جس بات کو کہتے ہیں اس عہدہ برآ ہونا خوب جانتے ہیں قریب تھا کہ ساریہ آئیں اور دشمن سے بھڑیں وہ ان کو شکست دے پھر وہ پہاڑ کی طرف آیا تو آسمان سے آواز آئی اے ساریہ پہاڑ کی طرف جس نے شبانی بھیڑیوں کے سپرد کردی اس نے ظلم کیا اور یہ آواز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تھی جس کو انہوں نے سنا۔ ( لطائف اشرفی  5/177)
          اس سے امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم کی دوکرامت ظاہر ہوئی ایک اتنی دور سے لشکر کاحال دیکھنا دوسرے مدینہ طیبہ سے اتنی دور آواز پہونچادینا ۔
5.   علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب”طبقات”میں تحریرفرمایا ہے کہ ایک شخص نے راستہ چلتے ہوئے ایک اجنبی عورت کو گھور گھور کر غلط نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے بعد یہ شخص امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس شخص کو دیکھ کر حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت ہی پر جلال لہجہ میں فرمایا کہ تم لوگ ایسی حالت میں میرے سامنے آتے ہو کہ تمہاری آنکھوں میں زنا کے اثرات ہوتے ہیں۔ شخص مذکور نے (جل بھن کر)کہا کہ کیا رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے بعدآ پ پر وحی اترنے لگی ہے؟آپ کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ میری آنکھوں میں زناکے اثرات ہیں۔
امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادفرمایا کہ میرے اوپر وحی تونہیں نازل ہوتی ہے لیکن میں نے جو کچھ کہا ہے یہ بالکل ہی قول حق اورسچی بات ہے اورخداوند قدوس نے مجھے ایک ایسی فراست (نورانی بصیرت) عطافرمائی ہے جس سے میں لوگوں کے دلوں کے حالات وخیالات کومعلوم کرلیاکرتاہوں۔ (حجۃاللہ علی العالمین 2/862)
 امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ اہل بصیرت اور صاحب باطن تھے اس لئے انہوں نے اپنی نگاہ کرامت سے شخص مذکور کی آنکھوں میں اس کے گناہ کے اثرات کو دیکھ لیااوراس کی آنکھوں کو اس لئے زناکار کہا۔
6.    امیرالمؤ منین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کاشانہ خلافت سے کچھ دور ایک مسجد کے پہلو میں دومیاں بیوی رات بھر جھگڑا کرتے رہے ، صبح کوامیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو بلا کر جھگڑے کا سبب دریافت فرمایا، شوہر نے عرض کیا :اے امیر المؤمنین (رضی اللہتعالیٰ عنہ) میں کیا کروں ؟ نکاح کے بعد مجھے اس عورت سے بے انتہا نفرت ہوگئی ، یہ دیکھ کر بیوی مجھ سے جھگڑا کرنے لگی، پھر بات بڑھ گئی اوررات بھر لڑائی ہوتی رہی ۔آپ نے تمام حاضرین دربارکوباہر نکال دیا اور عورت سے فرمایا کہ دیکھ میں تجھ سے جو سوال کروں اس کا سچ سچ جواب دینا۔  پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اے عورت!  تیرا نام یہ ہے ؟  تیرے باپ کا نام یہ ہے؟  عورت نے کہا کہ بالکل ٹھیک ٹھیک آپ نے بتایا۔ پھرآپ نے فرمایا کہ اے عورت  تو یاد کر کہ تو زناکاری سے حاملہ ہوگئی تھی اورایک مدت تک تو اورتیری ماں اس حمل کو چھپاتی رہی۔ جب دردزہ شروع ہوا تو تیری ماں تجھے اس گھر سے باہر لے گئی اور جب بچہ پیدا ہوا تو اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر تو نے میدان میں ڈال دیا۔  اتفاق سے ایک کتااس بچے کے پاس آیا۔ تیری ماں نے اس کتے کو پتھر مارا لیکن وہ پتھر بچے کو لگا اوراس کا سرپھٹ گیا تیری ماں کو بچے پر رحم آگیا اوراس نے بچے کے زخم پر پٹی باندھ دی۔ پھر تم دونوں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ اس کے بعد اس بچے کی تم دونوں کو کچھ بھی خبر نہیں ملی۔ کیا یہ واقعہ سچ ہے؟  عورت نے کہا کہ ہاں! اے امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ پورا واقعہ حرف بحرف صحیح ہے۔  پھر آپ نے فرمایا کہ اے مرد! تو اپنا سرکھول کر اس کو دکھا دے ۔ مرد نے سرکھولا تو اس زخم کا نشان موجود تھا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے عورت! یہ مردتیراشوہرنہیں ہے بلکہ تیرابیٹا ہے ، تم دونوں اللہ تعالیٰ کا شکر اداکروکہ اس نے تم دونوں کو حرام کاری سے بچالیا، اب تو اپنے اس بیٹے کو لے کراپنے گھر چلی جا۔          (شواہدالنبوۃ،صفحہ161)
          مذکورہ بالا دونوں مستند کرامتوں کو بغور پڑھئے اور ایمان رکھيے کہ خداوند قدوس کے اولیاء کرام عام انسانوں کی طرح نہیں ہوا کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو ایسی ایسی روحانی طاقتوں کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنادیتاہے کہ ان بزرگوں کے تصرفات اور ان کی روحانی طاقتوں اورقدرتوں کی منزل بلند تک کسی بڑے سے بڑے فلسفی کی عقل وفہم کی بھی رسائی نہیں ہوسکتی ۔
    خدا کی قسم!میں حیران ہوں کہ کتنے بڑے جاہل یا متجاہل ہیں وہ لوگ جو اولیاء کرام کو بالکل اپنے ہی جیسا سمجھ کران کے ساتھ برابری کادعوی کرتے ہیں اور اولیاء کرام کے تصرفات کا چلا چلا کر انکار کرتے پھرتے ہیں  تعجب ہے کہ ایسے ایسے واقعات جو نور ہدایت کے چاند تارے ہیں ان منکروں کی نگاہ سے آج تک اوجھل ہی ہیں مگر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ، جو دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو بند کرلے اس کو چاند ستارے تو کیا سورج کی روشنی بھی نظر نہیں آسکتی ۔درحقیقت اولیاء کرام کے منکرین کا یہی حال ہے ۔
احادیث کریمہ  میں سابقہ امتوں کے اولیاء عظام اور صحابہ کرام کی کرامتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئیں ہیں  ، علماء اعلام کے کراما ت کے اثبات و بیان میں ضخیم کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ اس سلسلے میں امام ابونعیم احمد بن عبدا للہ اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 430 ہجری) کی کتاب " حلیۃ الاولیا وطبقات الاصفیاء، امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن رحمۃ اللہ علیہ ( متوفی 465 ہجری) کی کتاب " الرسالۃ القشیریہ" حضرت علامہ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفی 597ہجری )  کی کتاب  "عیون الحکایات  اور بحرالدموع" علامہ امام عبداللہ بن اسعد یافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 768 ہجری) کی کتاب "روض الریاحین فی حکایات الصالحین"  حضرت سیِّدُنا علامہ شعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(متوفی 810ہجری) کی کتاب" الروض الفائق فی المواعظ والرقائق" اور علامہ یوسف بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1350 ہجری)  کی کتاب" جامع کرامات اولیاء " باالخصوص قابل دید ہیں۔
صحابہ کرام ، اہل بیت عظام تابعین ، تبع تابعین اور اولیاء کرام کی کرامتیں بہت ساری کتب میں موجود ہیں ۔ تارک السلطنت غوث العالم محبوب یزدانی سلطان اوحدالدین قدوۃ الکبریٰ مخدوم  سلطان سیداشرف  جہانیاں جہانگیر سمنانی نوربخشی السامانی  قد س سرہ النورانی کی عنہ  کی کرامات اور خوارق عادات اس قدر ہیں کہ بیان نہیں کیا جاسکتاہے مگر حصول برکت کے لئے کچھ کرامتوں  کا ذکرکیا جاتا ہے۔ بتا تا چلوں کہ آپ نے سو سال عمر پائی اور  تین بار ساری دنیا کا سفر کیا  پھر اگر غور کیا جائے تو اس مدت میں بحالت سفر و حضرمیں آپ سے کس قدر کرامتیں ظاہر ہوئی ہوں گی......واللہ اعلم ورسولہ اعلم

No comments:

Post a Comment