مریدوں کی خبر
رکھنا
غوث العالم
محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ کا ایک
مرید گوہر علی نا م کا تھا اور درحقیقت وہ درہائے شریعت اور ارکان طریقت
کا جوہر اور موتی تھا ایک دن اس کو ہریٰ
کے بازار میں گزرنا پڑا۔ ہریٰ کی عورتیں بے حد دلفریب ہوتی ہیں ۔ تھوڑی دیر
ایک عورت سے دو تین باتیں کیں جیسا کہ طبیعت بشری کا تقاضا ہے اس سے پاک ہوکر اسی
وقت توبہ و استغفار کیا اور حضرت کی طرف لوٹا
اور خدمت میں آکر بیٹھ گیا ۔ آپ نے کچھ بھی اس کی طرف توجہ نہ کی ۔ کچھ دیر کے بعد
نصیحت فرماتے ہوئے جلال میں آگئے اور
فرمایا کہ اس نادان کودیکھو کہ بازار میں پھرتا ہےاور اچھی صورت کا نظارہ کرتا ہے۔
حضرت دریتیم نے لوگوں کی سزا ان کے سپر د تھی ۔ حضرت قدوۃ الکبری ٰ کے حکم سے
فرمایا کہ گوہر علی کو مجلس سے باہر کرو۔
ایک
قلندر نے ان کو پکڑ کے مقام حضور سے محروم
کردیا ۔ چند روز اسی طرح گزر گئے تو حضرت
دریتیم کو مددگار کیا اور حضرت محبوب یزدانی کی طرف رجوع کی۔ قلندروں کے قدیم رواج
کے مطابق جو توں کی جگہ کھڑا کرکے اس کی گوشمالی کرائی اور سب لوگوں نے اس کی خطا
کی معافی طلب کی۔
حضرت
محبوب یزدانی نے فرماتے ہیں کہ گمراہوں اور بیکاروں کے پیرؤں اور رہنماؤں کے لئے ضروری
ہے کہ طالبوں کے خطرات دل سے واقف ہوں تا کہ ان کے دل میں شریعت اور طریقت کے خلاف
خطرہ نہ ہو اور اس نیت سے جس میں ہمت کی کمزوری ہو علیٰحدہ کردیں۔
جب وہ
بالکل اچھے ہوگئے
غوث
العالم محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ زمین
شرواں سے جب گزر رہے تھےاتقافاً ایک گاؤں
میں اترنا ہوا اور ساتھی لوگ مسجد میں اترے اور برف کی اس قدر بارش ہورہی تھی کہ
جس کی شرح ہیں ہوسکتی ۔ کمال الدین جوگی
کو رفع حاجت کا تقاضا ہوا ۔ رات میں اٹھے
اور ایک گوشے میں گئے ۔ وہیں برف نے اس قدر سردی پہونچائی کہ بالکل حرکت نہیں
کرسکتے تھے۔ ا ن کی زندگی میں ایک سانس سے زیادہ باقی نہ رہی ۔
حضرت
تازہ وضو کررہے تھے اور ابھی وضو سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ آپ کو سردی معلوم
ہوئی اور اس قدر تیز کہ بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ ساتھیوں کو بڑی حیرت ہوئی کہ باوجود سامان حرارت ، خیمہ، اونی لباس
، آگ اور فرش عمدہ کے اس درجہ سردی کیوں
ہوئی۔ حضرت خواجہ ابوالقاسم جو کہ حضرت کے
خلیفہ تھے اور عارفوں کے مشرب سے خوب واقف تھے جان گئے کہ حضرت محبوب یزدانی دوسرے
رنج سے رنجیدہ ہوئے ہیں ۔ مسجد سے نکلے اور ساتھیوں کو تلاش کیا ۔ معلوم ہوا کہ
کمال الدین جوگی باہر نکلے ہوئے ہیں۔ ان
کی تلا ش میں گئے دیکھا کہ برف میں پڑے ہیں ۔ ان کو اٹھالائے اور آگ سے تپایا اور
مختلف کپڑے ان کو پہنائے جب انہوں نے سردی اور برف کے اثر سے رہائی پائی ۔ حضرت
محبوب یزدانی بھی اپنی حالت پر پہ آئے ۔ جب وہ بالکل اچھے ہوگئے تو آپ پر بھی اثر نہ رہا۔
محبوب
ربانی اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں کہ جب مرید صادق العقیدہ مرتبہ
فنا فی الشیخ کو پہونچ جاتا ہے تو اس کے رنج و راحت کا اثر شیخ پر پہونچتاہے۔
سانپ اور اژدہے کو عصانے نگل لیا
حضرت شیخ ابوالمکارم فرماتے ہیں کہ ایک بار غوث العالم محبوب یزدانی حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س
سرہ کے علم شاہی کا گزر اطراف سیلان میں ہوا ۔ اس راستہ
میں جارہے تھے جو سانپوں اور اژدہوں سے بھر ہوا تھا ۔ ساتھیوں نے حضرت سے عرض کیا
کہ راستہ پر خطر ہے۔
حضرت نے
فرمایا کہ ان شا ء اللہ تعالے اس کا طے کرنا آسان ہو جائے گا۔
جب حضور
قلندران ہمراہی کا گذر سانپوں اور اژدہوں پر ہو ا ، ایک اژدھا ظاہر ہوا جس کا قد و
قامت ایسا تھا کہ ساری جماعت کو نگل جائے گا ۔
حضرت
محبوب یزدانی نے اپنا عصا کو اشارہ فرمایا ۔ جتنے اژدہے اور سانپ
تھے سب کو شیر کی شکل ہوکر نگل
گئے۔
قافلہ
میں اصحاب تصوف کے منکروں اور مخالفوں کا بھی ایک گروہ تھا ۔ اس عجیب کرامت کی خبر
پاکر انہوں نے کہا کہ عجیب جادو ہے جو اس گروہ فقراء سے ظاہر ہوا ہے اور
انوکھا مکر ہے جو ان لوگوں سے صادر
ہوتا ہے۔
ایک شخص
نے یہ بات سن کر حضرت محبوب یزدانی کے گوش مبارک تک پہونچائی ۔
آپ نے
فرمایا کہ جنہوں نے حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر اتہام جادو اور مکر کے نہ چھوڑا بھلا
مجھ کو کس طرح چھوڑیں گے۔ قرآن مجید میں آیا ہے۔ ھذا سحرمبین اور جب
کہ اس گروہ کو ایسے امرسے منسوب کرتے ہیں جس کی نسبت حضرت رسالت پناہ ﷺ کو کیا تھا
تو سنت پر اس کا ثبوت سمجھناچاہیئے تھا۔
No comments:
Post a Comment