Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 06

حضرت شیخ علاؤ الدین گنج نبات قدس سرہ
   قدوۃ العارفین زہدۃ السالکین رہنمائے اہل یقین  پیشوائے بزرگان دین راز ہائےسر بستہ کے امین حضرت مخدوم  شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات خالدی پنڈوی قدس سرہ  اپنے وقت کے جلیل القدر بزرگ صاحب تقوی وروحانیت اور مقتدائے ارباب ولایت تھے یعنی علم و فضل زہد وتقویٰ وپرہیزگاری میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے ۔ آپ کے والد محترم کو عمر بن اسعد لاہوری کہتے تھے جو بادشاہ بنگال کی تمام سلطنت کے وزیر تھے ۔طریقت میں آپ  قطب ولایت حضرت  شیخ سراج الدین عثمان المعروف اخی سراج آئینہ ہند قد س سرہ کے مرید اور خلیفہ تھے  اور عثمان اخی بھی سلاطین بنگال کے امراء میں سے تھے جو لاہور سے آکر بنگال میں ساکن ہوگئے تھے۔  (مراۃ الاسرار  صفحہ 1013)
علمی دنیا میں اسوقت  آپ کے خاندان کو وہی شہرت حاصل تھی جو مسلمانوں کے آخری دور حکومت میں  حضرت مولانا عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ  کو حاصل ہوئی تھی ۔ مولانا اسعد لاہوری علیہ الرحمہ کی علمی شہرت  شمالی ہندوستان سے گزرکر جب مشرقی حصہ تک پہونچی سلاطین گور نے بااصرار تمام آپ کے پورے خاندان کو بنگال بلایا  مولانا تو وزیر خزانہ بنادیئے گئے  تھے اور آپ کے دیگر اور قابل اعزا بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے ۔ (محبوب یزدانی صفحہ 36)
مزے کی بات یہ ہے کہ  سلطان سید سلطان اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کے والد محترم بادشاہ نسبِ مادری میں بادشاہ ،   پیر ومرشد بادشاہ  ،خود بادشاہ اور بھائی بھی بادشاہ ۔ اللہ اللہ کیا شان ہے  شاہ سمناں کا ۔
                                      کیسے آقاؤں  کا  بندہ  ہوں  رؔضا
بول بالے میرے سرکاروں کے
  حضرت شیخ سراج اخی  قدس سرہ ( المتوفی 758ہجری) کا لقب سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الہی  قدس سرہ  (المتوفی 725 ہجری) کی زبان مبارک پر گزرا تھا کہ "ایں آئینۂ  ہندوستان است" یعنی سراج اخی ہندوستان کا آئینہ ہے ۔          ( اخبار الاخیار ، سیرالاولیاء ، اذکارابرار، روضۃ الاقطاب)
سبحان اللہ آخر اسی طرح ہوا کہ سراج اخی  سلطان المشائخ کے دسویں خلیفہ تھے۔ حضرت سراج اخی ظاہری وباطنی کمالات سے مزین تھے ، عشق و محبت اور ذوق سماع میں آپ کے بے نظیر و تجرید و ممتاز اورلطف و کرم میں مشہور تھے۔ تربیت مریدین میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔
 اگرچہ سلطان المشائخ کے تمام خلفاء صاحب مقامات عالی تھے لیکن دو بزرگ ایک شیخ نصیر الدین محمود اور دوسرے اخی سراج الدین کی چاشنی اور تھی ان دونوں حضرات سے  کثیر التعداد خلقت فیضیاب ہوئی اور بہت بزرگ صاحب خلافت وارشاد ہوئے چنانچہ آج تک ان دونوں حضرات سے تمام ہندوستان میں سلاسل جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے۔ ان شاء اللہ  تعالیٰ   (مراۃ الاسرار صفحہ 888)
شیخ محقق حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب اخبارالاخیار میں شیخ علاؤالحق پنڈوی  علیہ الرحمہ کے تذکرے میں لکھا ہے وہ فرماتے ہیں کہ"ابتدائی زمانے میں مال دار اور غنی ہونے کے وجہ سے نہات ہی شان و شوکت سے رہا کرتے تھے مگر جب سراج اخی کےمرید ہوئے تو سب کچھ چھوڑ کر فقیرانہ اور مستانہ وار گوشہ نشینی اختیار کرلی ۔  (اخبار الاخیار صفحہ 310)
فخرخاندان حضرت شیخ علاؤ الحق والدین  گنج نبات قدس سرہ  اس خاندان کے چشم و چراغ تھے جو خود تو تاج شاہی کے سائے میں تھا لیکن اس خاندان کے سائے میں ہزارو ں نہیں لاکھوں پلتے تھے ۔ جس راہ سے نکل جاتے تھے آنکھیں فرش راہ ہوتی تھیں ۔ جس گلی سے گزر جاتے اقرار اطاعت کے دامن بچھ جاتے۔ آپ اپنے زمانہ کے اکابرین علماء میں شمار کئے جاتے تھےاور ایک زمانے تک دین وتبلیغ کی خدمت کرتے رہے۔ آپ کی محفل میں علماء و فضلاء کا جمگھٹ رہا کرتا تھا ۔
علوم معارف کے لحاظ سے بھی آپ کا مقام ارفع و اعلیٰ تھا ڈاکٹر وحید اشرف  صاحب لکھتے ہیں "
" علوم معارف میں آپ کا مرتبہ نہایت بلند تھا کبھی کبھی جوش کے عالم میں سید اشرف سے فرماتے تھے کہ آیات قرآنی کی تفسیر ، فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کے نکات مجھ سے حاصل کرلو میں ایک پر بار درخت ہوں جسے ہلاؤ تو تمہیں عجیب وغریب پھل ملیں گے۔           ( حیات سید اشرف جہانگیر سمنانی صفحہ 57)
شیخ علاؤ الدین گنج نبات کے ارشاد گرامی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ طریقت میں علمیت و روحانیت کے کتنے بلند مقام پر فائز تھے۔ جب شیخ سراج الدین اخی سلطان المشائخ کی خلافت سے مشرف ہوئے اور اپنے اصلی وطن بنگال جانے کا ارادہ کیا تو سلطا المشائخ کی خدمت میں عرض کیا کہ وہاں شیخ علاؤالدین بڑا عالم و فاضل اور صاحب جاہ و منزلت ہے ۔ میراوہاں کیسے گزارہ ہوگا۔ سلطان المشائخ نے فرمایا فکرمت کرو وہ تمہار ا خادم ہوجائے گا۔ آخر یہی ہوا۔    (مراۃ الاسرار صفحہ 1014)
آپ نے اپنے شیخ اخی سراج آئینہ ہند قدس سرہ کی بڑی خدمت کی دن رات سفر وحضر میں ان کے ساتھ رہے اور فیوض و برکات حاصل کئے جب شیخ اخی سفر پر جاتے تو آپ کا سامان اپنے سر پر رکھ کر میلوں پیدل سفر کرتے اور ان کی خدمت میں کسی قسم کی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
غوث العالم محبوب یزدانی سلطان سیدمخدوم اشرف جہانگیرسمنانی  قدس سرہ   فرماتے ہیں کہ شیخ سراج الحق والدین قدس سرہ  حضرت مخدومی قدس سرہ (شیخ علاؤالحق گنج نبات پنڈوی) کی نسبت  کمال درجہ لطف ومہربانی فرمایا کرتے تھے ۔ لیکن ان سے خدمت اس حد تک لیتے تھے کہ اکثر اوقات حضرت سراج الحق اخی قدس سرہ پالکی میں سوار ہوجاتے اور سیر کو نکل جاتے ۔ حضرت شیخ علاؤالحق گنج نبات پنڈوی پالکی کا سیدھے  ہاتھ کا ڈنڈا اپنے کاندھے پر رکھ کر دور تک پالکی لے جاتے تھے۔  اکثر ایسابھی ہوتا تھا کہ شیخ سراج الحق قدس سرہ النورانی کے خدام کھانے کی گرم گرم دیگ ( دیگچی) حضرت مخدومی کے سرپر رکھ دیا کرتے تھے ۔ آپ کے بعض خدام کوشش کرتے کہ وہ برتن آپ سے لے کر خود اپنے سر پر رکھ لیں لیکن حضرت مخدومی کسی دوسرے کو دینے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔
حضرت مخدومی نے یہ گرم دیگچی اس کثرت سے اپنے سر پر اٹھائی تھی کہ آپ کے سر کے تمام بال ( جل کر) گر گئے تھے۔ اکثر اوقات شیخ سراج الحق آئینہ ہند  قدس سرہ کی پالکی حضرت مخدومی کے سسرال والوں کے محل سے گزرتی تھی ( اس حال میں کہ پالکی کا بازوئے راست حضرت مخدومی کے کندھے پر ہوتا تھا ) اس زمانہ میں آپ کے سالے ( Brother - in- law)  منصب وزارت پر فائز تھے۔  انہیں حضرت مخدومی کی اس خدمت سے بہت عار آتی تھی اورکہا کرتے تھے کہ اے بے ننگ یہ خدمت کرکے مجھے کیوں شرمندہ کررہا ہے ۔ حضرت مخدومی جواب فرمایا کرتے تھے کہ.......
چہ می گوئی کہ زین ننگ تمام  است
یہ کیا  کہتے  ہو ہے   یہ ننگ  کا   کام
کہ مارا درجہاں زین ننگ نام  است
جہاں میں ہے مرااس ننگ سے نام
کسی  کورا  بود  زین  خدمتش  ننگ
جو   کہتا   ہے    اسے    کارِ   کمینہ
زند فرداز  حسرت  سینہ  برسنک
تو   کل کوٹے گا و ہ حسرت سے سینہ
شیخ آپ کی خدمت سے بہت خوش ہوئے اور جو کچھ روحانی نعمتیں انہیں اپنے شیخ حضرت سلطان المشائخ سید نظا م الدین محبوب الہی  دہلوی بدایونی  قدس سرہ  سے ملی تھیں وہ سب کی سب انہوں نے آپ کے حوالہ کرکے اپناجانشین  اور روحانیت کے عظیم منصب پر فائز فرمادیا   چنانچہ شیخ کے بعد آپ مسندارشاد میں متمکن ہوئے۔
شیخ علاؤ الدین گنج نبات  قدس سرہ نے اپنے علم و روحانیت کے ذریعے بنگال میں رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا اور تشنگان معرفت کو سیراب کرتے رہے آپ کا سلسۂ نسب صحابی رسول حضرت سیدنا خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے صاحب مراۃ الاسرار نے آپ شان و عظمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ........................
"آپ کے کمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ میر سید اشرف جہانگیر سمنانی جیسے شاہباز اور بلند پرواز حضرت خواجہ خضر علیہ السلام کی راہنمائی سے ملک خراسان سمنان کی بادشاہی چھوڑ کر آپ کی خدمت میں پہونچے اور جس تربیت سے مربتہ تکمیل وارشاد پر پہونچے باوجودیکہ بے شمار اولیاء کبار سے آپ کی راستے میں ملاقات ہوئی لیکن سب نے یہی فرمایا کہ تمہارا مرشد بنگال میں ہے  وہاں جاؤ ۔ حضرت حضرت علیہ السلام نے 70 ستر مرتبہ شیخ علاؤالحق کو خبر دی کہ ایک باز سمنان سے اڑ چکا ہے اور بہت سے مشائخ نے جال پھیلادیئے ہیں  لیکن میں آپ کے لئے لارہاہوں۔
(مراۃ الاسرار صفحہ 1014، معارج الولایت )
شیخ علاؤ الحق  کی خانقاہ  غریبوں، فقیروں اور بے سہار ا لوگوں کی امید کا مرکز تھی جہاں ہر وقت ہزاروں  کی تعداد میں لوگ حاضر ہوتے اور دامن بھرکر جاتے تھے آپ کی خانقاہ کا خرچ بادشاہ وقت کے خرچ سے بھی زیادہ تھا بادشاہ کو اس پر حیرت ہوتی تھی ایک مرتبہ بادشاہ نے کہا کہ شاید انہوں نے بیت المال کے افسر سے کوئی سازباز کی ہے جب ہی یہ اتنا خرچ کرتے ہیں پھر اس نے حکم دیا کہ آپ اس شہر سے نکل جائیں اور سنار گاؤں میں رہیں آپ فوراً اپنے اپنے مریدوں کے ہمراہ روانہ ہوئے اور سنارگاؤں میں اقامت اختیار کرلی آپ دوسال سنار گاؤں میں رہے لیکن ظاہراً کوئی وجہ معاش نہ تھی ۔ دوباغ جو آپ کو اپنے آباؤاجدادسے ملے تھے ان کی آمدنی آٹھ ہزار روپے تھی لیکن کسی آدمی نے ان پر قبضہ کرلیا تھا اور کچھ نہیں دیتاتھاشیخ  نے اسے بھی کچھ نہ کہا اور خلق کو بے اندازبخشش کرتے رہتے تھے آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس قدر میر ے شیخ اخی سراج الدین کرتے تھے ۔ میرا خرچ اسکا عشر عشیر بھی نہیں ۔
 چنانچہ آپ نے خادم سے فرمایا اب تک روزانہ جتنا خرچ کرتے تھے اب اس سے دگنا خرچ کرو خادم نے حکم کی تعمیل کی اور آپ کی لنگر کا خرچ دگنا ہوگیا اسی طرح مجمع لگا رہتا تھا لوگ آتے تھے اور اپنی مراد پاتے تھےحقیقت میں آپ کو دست غیب تھا جس کی وجہ سے آپ بے اندازہ خرچ کرتے تھے اور پھر بھی کمی نہیں ہو تی تھی آپ مخلوق کی بجائے خالق پر بھروسہ کرتے تھے  یہی وجہ تھی کہ آپ کو اطمینان قلب اور توکل کی دولت حاصل تھی آپ مقام توکل پر فائز تھے اس لئے ہمہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہتے تھے ۔
حضرت شیخ علاؤ الدین مجذوب اکبر آبادی قدس سرہ جو ماضی و مستقبل کے حالات بتاتے تھے  جو سادات زیدپور میں سے تھے اوریہ سدھور کے قصبات میں آبادہے ابھی ضلع بارہ بنکی  اترپردیش  ہندمیں ہے۔ لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ ہمارے اکثر مشائخ ابدال ہفتگانہ تھے چنانچہ ان کے سرحلقۂ خواجہ ابواحمد چشتی ابدال قد س سرہ  تھے اور مخدوم علاؤ الحق پنڈوی   قد س سرہ بھی ابدال ہیں  آپ کے خوارق عادت بہت ہیں چنانچہ مخدوم علاؤ الحق پنڈوی قد س سرہ   کے فرمان کے مطابق آپ کے مریدین پہاڑوں میں مختلف مقامات پر مشغول رہتے تھے اور ان کے درمیان بہت طویل فاصلہ ہوتا تھا جب خلوت کے بعد سب واپس آتے تھے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ فلاں فلاں دن حضرت مخدوم میرے پاس تشریف لائے تھے ۔ لیکن جب خانقاہ والوں سے دریافت کیا جاتا تو معلوم ہوتا تھا کہ آپ خانقاہ سے باہر نہیں گئے تھے۔ (مراۃ الاسرار 1015)
لطائف اشرفی میں یہ بھی لکھا ہے کہ صورت تبدیل کرنا ابدال کا خاصہ ہے بلکہ بعض مشائخ صورت بدلتے تھے اور بعض حضرات کو ہم نے دیکھا ہے کہ انکی روحانیت متجسد اور متمل ہوجاتی ہے یعنی ان کی روح کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرکے ظاہر  ہوتی ہے اور اسی صورت میں کام کاج کرتے تھے لوگ سمجھتے ہیں کہ کہ وہ اپنی جسمانی صورت میں ہیں حالانکہ وہ بزرگ ان کامو ں سے بالکل متبرا ہوتے ہیں اور ہم نے بارہا اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے چنانچہ مخدومی شیخ علاؤالحق پنڈوی  قدس سرہ  کو بعض بادشاہوں اور امیروں نے جو مرید تھے یو ں دیکھا ہے کہ جنگ  کے دوران کفار سے لڑ ائی کررہے تھے لیکن انہوں نے خانقاہ سے باہر قدم نہیں رکھا ۔ ( مراۃ الاسرار صفحہ 1016)
ایک دن چند قنلدر حضرت شیخ علاؤ الحق پنڈوی  کی خانقاہ میں آئے ہوئے تھے ایک بلی بھی ان کے ساتھ تھے وہ بلی گم ہوگئی  اورکہیں چلی گئی
 قلندروں نے کہا  اے شیخ!  آپ کی خانقاہ میں ہماری بلی گم ہوگئی ہے اسے کہیں سے تلاش کرکے دو۔
شیخ نے فرمایا:   میں کہاں سے تلاش کرکے آپ کو دوں ؟
 ایک نے کہا: شاخ آہو سےتلاش کرو مگر ہمیں لاکر دو۔
آپ نے فرمایا: سینگھ پر پاؤگے  اور دوسرے نے  بد تمیزی کی اور کہنے لگا ہماری بلی تو دینی پڑیگی ہم اپنی بلی کہاں سے لائیں کیا ہم  اپنے خصیوں سے لائیں ؟  
آپ نے فرمایا: ہاں تمہیں تو تمہارے  خصیوں سے ہی ملے گی  ۔
جب وہ لوگ باہر آئے  تو جس نے سینگھ کی فرمائش کی تھی ۔ ایک گائے آئی اور بلی اس کے سینگھ سے برآمد ہوئی ۔ جس شخص نے  بدتمییزی کی تھی  اس کے خصیے اس قدر سوج گئی کہ اسی مرض میں مر گیا ۔ یہ شخص اپنی گستاخی کی سزا کو پہونچ گئے۔ ( اخبار الاخیار)
ایک بار حضرت سلطان سید اشرف نے فرمایا کہ طبقات الصوفیہ میں شیخ ابوالحسن قزوینی کا یہ قول مذکور ہے کہ مشائخ کبار میں سے پانچ مشائخ کو میں جانتاہوں کہ جو اپنی قبروں سے تصرف فرماتے ہیں بالکل ویسا ہی جیساکہ وہ زندگی میں تصرف کرتے تھےوہ یہ ہیں ۔
1.      حضرت شیخ  معروف کرخی
2.    حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
3.   حضرت شیخ محی الدین ابن عربی
4.   حضرت شیخ عقیل منبجی
5.   حضرت شیخ حیات حرانی                     (قدس اللہ تعالیٰ و اسرارہم)
حضرت شیخ کبیر علیہ الرحمہ نے معروض کیا کہ یہ حضرات تو بیرونی ممالک (دوسری ولایتوں سے)  سے تعلق رکھتے ہیں  یہ ارشادفرمائیں کہ ہندوستان کے مشائخ میں وہ کون سے حضرات ہیں کہ مرنے کے بعد بھی انکے تصرفات باقی ہیں ۔
حضرت محبوب یزدانی  قد س سرہ نے فرمایا کہ مشائخ ہند کے مابین فرق مراتب کرنا سوئے ادب ہے ۔ خصوصاً خانوادۂ چشتیہ کے مشائخ میں جو ہمارے پیر و مرشد ہیں یہ فرق مراتب بے ادبی ہے ۔ اس خانوادۂ عالی کے اکثر وبیشتراولیاء میں پوری پوری قوت تصرف عالم ممات میں باقی ہےخصوصاً ..............
1.      سیدی مرشدی شیخ علاؤالحق پنڈوی
2.    حضرت نظام الدین اولیاء
3.   حضرت شیخ فریدالدین گنج شکر
4.   حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
5.   حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری                  (قدس اللہ تعالیٰ و اسرارہم)

No comments:

Post a Comment