Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 02

والدہ ماجدہ
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ کی والدہ محترمہ کا نام "سید ہ خدیجہ بیگم "  جو سلطان العارفین حضرت خواجہ احمدیسوی قدس سرہ کی بیٹی تھیں  ۔  بیگم صاحبہ نہایت عابدہ صالحہ تھیں اور کیوں نہ ہوتیں کہ وہ نسل خاندان سیادت سلطان العارفین سے تھیں ۔ قرأت قرآن کریم ، ادائے نوافل اور وظائف میں شب وروز بسرکرتیں ۔ اکثر شب بیداری کرتیں اور دن کوروزہ رکھتیں۔ مدت العمر میں کبھی آپ کی نماز تہجد قضا نہیں ہوتی۔       (لطائف اشرفی 22/32)
نہ شب فارغ  ست  از پر ستش گری
نہ  روز   از   تما شائے    دل   پروری
بہ  مقدار ِآں  سردر  آرد  بخو اب
کہ مرغے  بروں  آور دسرزآب
رات کو عبادت گزاری سے فرصت نہیں ، دن دل پروری کے تماشے سے فارغ نہیں ہوتا، بس اتنی دیر کے لئے نیند آتی ہے جتنی دیر کےلیے کوئی پرندہ پیاس بجھانے کے لئے پانی میں سرڈالتاہے اور اپنا سر  باہر نکالتا ہے۔
حضرت شیخ ابراہیم سرہندی نے اپنی کتاب "سنوات الاتقیاء " میں لکھا ہے کہ حضر ت مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کا سلسلۂ نسب مادری جناب حضرت غوث پا ک سید محی الدین عبدالقادر جیلانی کی خواہر عفیفہ سید ہ  بی بی نصیبہ رحمۃ اللہ علیہا سے ملتا ہے۔ (سنوات الاتقیاء)
سلطان العارفین حضرت خواجہ احمد یسوی قدس سرہ ( 552ہجری)   صحیح النسب علوی تھے کیونکہ  آپ حضرت محمد بن حنفیہ بن حضر ت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد سے تھے ۔ آپ ترکستان کے سلسلہ خواجگان کے مشہور بزرگ تھے اور آپ کا شمار مقتدائے کاملین میں تھا ۔ صاحب مشائخ چشت نے لکھا ہے کہ آپ اتالیسوی کے نام سے مشہور تھے ۔ اتا ترکی زبان میں باپ کہتے ہیں اور ترکستان کے مقام یسی کے نسبت سے یسوی کہلائے ۔ حضرت خواجہ احمد یسوی علیہ الرحمہ حضرت خواجہ یوسف ہمدانی علیہ الرحمہ (المتوفی 535ہجری) کے مرید وخلیفہ تھے جن کے بارے میں نفحات الانس کے الفاظ یہ ہیں کہ "امام عالم ربانی صاحب الاحوال والمواھب الجزیلہ والکرامات والمقامات الجلیلہ" حضرت یوسف ہمدانی علیہ الرحمہ کے چارجلیل القدر خلفاء تھے ان میں سے حضرت خواجہ احمد یسوی علیہ الرحمہ تبلیغ و اشاعت دین کی خاطر ترکستان پہونچے اور اپنے سلسلۂ ارادت و بیعت کو خوب پھیلایا ۔   ( نفحات الانس صفحہ 337 ، خزینۃ الاصفیا صفحہ531-532)
اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں آپ کے متعلق لکھا ہے کہ ترکی کے مشہور شاعر اور درویشی کے بانی حضرت خواجہ فرید الدین عطار نے انہیں پیر ترکستان  کا لقب دیا تھا ۔ خواجہ احمد یسوی نے جاہل اجڈ ترکوں تک اسلامی تعلیمات پہونچانے کے لئے انہی کی زبان میں شاعری کی اور یوں ترکی ادب میں صوفیانہ شاعری کا ایک معتدبہ حصہ چھوڑا تصوف کی تاریخ میں احمد یسوی ایک ایسی شخصیت کے مالک ہیں جنہوں نے مریدوں اور پیروں کے کئے سلسلوں کو جنم دیا اور ان سے منسوب"دیوان حکمت" نے صوفیانہ طرز زندگی پر گہرا اثر ڈالاخصوصا نقشبندی سلسلے نے اپنی تعلیمات کا مآخذ اس دیوان کو بنایا۔  
(سیدقاسم محموداز اسلامی انسائیکلوپیڈیا صفحہ 122)
واضح رہے  کہ سلطان العارفین  حضرت خواجہ احمد یسوی علیہ الرحمہ یسا کے رہنے والے تھے یسا ترکستان کا ایک شہر ہے اور خواجہ صاحب کا مقبر ہ یسا میں موجود ہے جسے  بادشاہ تیمور لنگ نے بنوایا تھا۔  یہی  مقدس بزرگ سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ  کےحقیقی نانا تھے ۔
سلسلۂ نسب مادری  سلطان سید اشرف جہانگیر سمنا نی السامانی  قدس سرہ  کا سلطان اسماعیل سامانی سے اس طرح ملتا ہے کہ حضرت سید ابوالمظفر علی اکبر بلبل جو کہ نقباء ملک عراق سے تھے جن کی شان  میں شیخ الاسلام والمسلمین  حاجی الحرمین الشریفین حضرت سید عبدالرزاق نورالعین علیہ الرحمہ  نے  کچھ اشعار فارسی میں  تحریر فرمائے ہیں  جو آپ صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ 55 میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔
حضرت سید ابوالمظفرعلی اکبر بلبل موصوف دختر نیک اختر سلطان اسماعیل سامانی فرخ زاد بیگم نام کو حبالۂ نکاح میں لائے ۔ ان سے سید شمس الدین محمود نوربخشی قدس سرہ  پیدا ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے مرتبۂ ولایت میں نقباء کا درجہ عطاکیا تھا ۔ سلطان اسماعیل سامانی کو اپنے نواسہ کی ولایت اورکمال پر فخر و ناز تھا ۔ اکثر ملکی مہمات میں بدعاء حضرت سید شمسؔ الدین محمود نوربخشی کے سلطان اسماعیل سامانی کو فتح و نصرت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلطان اسماعیل سامانی کے غلام سبگتین اور الپتگین دونوں تھے ۔ سبکتگین کے بیٹے حضرت سلطا ن محموؔد غزنوی تھے جن کا دارالسلطنت غرنین تھا اور ہندوستان پر بھی حملہ آور ہوکر گروہ کفرکو شرف اسلام سے مشرف فرمایا ۔ آپ بھانجےسید سالار مسعؔودغازی ابن سیدساہؔوسالار علوی نے جہاد کرنے ہوئے مقام بہرؔائچ میں آکر شہادت پائی ۔
سلطان سیداشرف جہانگیر سمنانی  علیہ الرحمہ نے رسالہ اشرف الفوائد میں فرمایا ہے کہ میرے خاندان کی عظمت اور شان بلند اور شرف عالی یہاں سے تصور کرنا چاہیے کہ محموؔد غزنوی جیسے بادشاہ ہمارے بزرگوں کے غلام زاؔدوں نے سلطنت اور بادشاہت کی ۔ فقیر کا نسب مادری سلطان اسماعیل سامانی سے منسوب ہے۔ (اشرف الفوائد)
حضرت نظام الدین یمنی لکھتےہیں کہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ نے فرمایا  کہ ہماری سلطنت کا سلسلہ ہمیں اپنی والدہ کی میراث سے ملاتھا کیوں کہ ہماری والدہ کے اجدادسلاطین سامانیہ سے تھے جنہوں نے دوسو سال عراق و خراسان میں حکومت کی ۔ سلاطین سامانیہ کی جہاں گیری اور فتوحات ملکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سلطان محمود غزنوی انا اللہ برہانہ ، خاندان اصلیہ سامانیہ کے نامزد ملوک نیز خادموں اور مجازی خوانین میں سے تھے ۔ ان کی ذات سے اسلام کے آثار وثمرات تمام ملکوں باالخصوص ہندوستان میں ( ابھی تک )  باقی ہیں۔ (لطائف اشرفی 52/514)
سید شمس الدین محمودنوربخشی صاحب ولایت ہونے کے ساتھ ساتھ مستجاب الدعوات تھے۔ آپ سلطان الزہد حضرت  سلطان شمس الدین التمش چشتی  علیہ الرحمہ کے زمانے کے اجلہ صوفیاء میں شمار ہوتے تھے ۔ قطب الاقطاب حضرت قطبؔ الدین بختیار کاکی اوشی چشتی علیہ الرحمہ نے آپ کو بشارت بھی دی تھی جس کا ذکر سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ نے مکتوبات اشرفی میں فرمایا ہے لکھتے ہیں "کہ میرے جد امجد سید شمس الدین محمود نوربخشی السامانی حضرت قطب الدین بختیارکاکی اوشی چشتی علیہ الرحمہ کے زمانے میں ہندوستان کی سیر کو تشریف لائے اور سلطان شمس الدین التمش کے گھر مہمان ہوئے سلطان موصوف جو قطب صاحب کے مرید او رخلیفہ تھے ۔ ان سے تعریف کی کہ میرے گھر ایک مہمان سید عالی خاندان ملک ایراؔن کے رہنے والے تشریف لائے ہیں وہ مرتبہ ولایت میں نقباؔء کے درجے کو پہونچے ہوئے ہیں قطب صاحب نے فرمایا کہ ایسے مہمان عظیم الشان کو تم نے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ ان کو ہمارے گھر ٹھہرانا چاہیئے تھا میں تو ان کو خواجگان چشت سے سمجھتا ہوں ۔ دوسرے دن حضرت سید شمس الدین محمود  قد س سرہ حضرت قطب صاحب  قدس سرہ کے گھر مہمان ہوئے حضرت قطب صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں آپ کو خوشخبری  سناتا ہوں  کہ آپ کی اولاد میں ایک ایسانادرالوجودشخص ہوگا جو رتبۂ جہانگیری پر فائز ہوگا اور میرے سلسلے کو جاری کرے گا اور خطۂ یوض جس کو اودھ کہتے ہیں اس میں پچھم حدود قصبہ جائس اور سترک سے لے کر پورب دیائے کوسی تک یعنی اس درمیان میں ان کا ظہور ہوگا۔   (مکتوبات اشرفی صفحہ 42)
اس بشارت کو ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ یہ خیا ل نہ کیا جائے کہ اس سے اپنی کسی بزرگی کا اظہارمقصود ہے بلکہ بتقضائے  واما بنعمدربک فحدث یہ کلمات ذکر کئے ہیں یعنی آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جو بشارت میں نے بیان کی ہے اس کا مقصد اپنی بڑائی نہیں یا بزرگی کا اظہار نہیں ہے بلکہ صرف تحدیث نعمت کے لئے ذکر کی ہے۔
رسالہ غوثیہ میں حضرت خواجہ خواجگان سلطان الہند خواجہ معین الدین ولی الہند چشتی اجمیری  رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے کہ میرے سلسلوں میں ایک غوث جہانگیر پیدا ہوگا اور وہ ترقی کے ساتھ میرے سلسلہ کو جاری کرے گا۔   ( رسالہ غوثیہ ،صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ135)
کتاب" بہجۃ الاسرار" مؤلفہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قد س سرہ سے منقول ہے اسی طرح طبقات الصوفیہ سے حضرت ابوالفضائل مولانا نظام یمنی نقل کرتے ہیں کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی طواف خانۂ کعبہ میں مشغول تھے کہ آپ نے دیکھا ایک شخص نہایت تیز روی کے ساتھ طواف خانۂ کعبہ کررہاہے اور جب آدمیوں کے ہجوم سے گزرتا ہے بغیر کسی کو ہٹائے ہوا کی طرح نکل جاتا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔
مجھ کو حیرت ہوئی کہ اس شخص کے جسم ہیں یا محض روح بشکل جسم نظر آتی ہے۔
جب طواف کرچکے تو میں نے ان کو سلام کیا ۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ حضرت ابابکر سبطی قد س سرہ  ہیں۔
میں نے چوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت غوث زمانہ کون ہیں ؟
فرمایا کہ میں ہوں اور میرے بعد سید جلال الدین ہوں گے اور ان کے بعد سید اشرف ہونگے۔
(طبقات الصوفیہ ، بہجۃ الاسرار،صحائف اشرفی حصہ اول صفحہ135)
غرض کہ جس طرح غوث الثقلین محبوب سبحانی  رضی اللہ عنہ کے زمانہ ظہور سے پہلے آپ کی ظہور کی بشارت مشائخ ماسبق فرماتے تھے اسی طرح سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ظہور سے پہلے اولیاماسبق نے آپ کے ظاہر ہونے کی پیشن گوئی فرمائی تھی اور آپ کے پیر برحق حضرت شیخ علاؤ الحق پنڈوی  قدس سرہ نےمحبوب یزدانی کو  خوشخبری سنائی تھی کہ تم غوث زمانہ ہوگے اور اسی طرح حضرت مخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت قدس سرہ نے مژدۂ حصول مراتب غوثیہ اور قطبیہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  کو پہونچایا تھا۔ 

No comments:

Post a Comment