Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 05

جھاد فی سبیل اللہ
آپ نے جہاد فی سبیل اللہ کافریضہ بھی بطریق احسن انجام دیا  چنانچہ نہ صرف مالی اور لسانی جہاد کیا بلکہ جہاد بالسیف بھی کیا ۔ ترک حکومت سے قبل جب وہ سمنان کے حکمراں تھے ، کافروں کے خلاف باقاعدہ جہاد کیا اور دشمنوں کو شکست فاش دی۔
آپ ایک بہترین سپہ سالار بھی تھے ۔ کم عمری میں  سپہ سالار کی حیثیت سے حصہ لینا اور اپنے سے بڑے دشمنوں کو شکست فاش دینا  اس با ت کی دلیل ہے کہ ان کے اندر  یہ تمام صلاحیتیں موجود تھی ۔

مسافرت ھندوستان
تخت سے دستبردار ی کے بعد آپ نے ہندوستان کی طرف چل پڑے ، گھڑ سوا ر اور پیا دہ فوج کچھ دور تک آپ کے ہمرکاب تھے لیکن آپ نے انہیں بالآخرواپس لوٹا دیا اور تنہا سفر اختیار کیا ،یہاں تک کہ ایک موقع پر اپنا گھوڑا بھی کسی ضرورت مند کو دے دیا اور پیدل سفر جاری رکھا ۔ ملتان کے راستے اُوچ شریف پہنچے ۔  مخدوم جہانیاں جہاں گشت حضرت سید جلال الدین البخاری  قدس سرہ النورانی  سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے فرمایا کہ ایک مدت کے بعد خوشبوئے طالب صادق میر ے دماغ میں پہنونچی ہے اور ایک زمانے کے بعد گلزار سیادت سے نسیم تازہ چلی ہے ۔ فرزند ! نہایت مردانہ راہ نکلے ہو، مبارک ہو۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آپ کو مقامات فقر سے بہت کچھ عطا کیا اور فرمایا کہ جلدپورب  سمت بنگال کی طرف جائیے کہ برادرم علاؤ الدین گنج نبات اسعد لاہوری قدس سرہ النورانی آپ کے منتظر ہیں ۔خبردار! کہیں راستہ میں زیادہ نہ ٹھہریئے۔
جب آپ سلاؤ سے بہار شریف کی طرف گئے مخدوم الملک  حضرت شیخ شرف الدین احمدبن یحییٰ بن اسرائیل مینری قدس سرہ  (المتوفی 782)ہندوستان کے مشاہیر مشائخ اور اولیاء کبیر میں نمایا ں اورصاف حمیدہ اور صفات صالحہ کے حامل تھے ۔ حضرت مخدوم الملک  آغاز سلوک سلوک کی منزل می اصلاح نفس کی خطر دامن میں کوہ میں رہا کرتے تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ اپنے ایک غلام فتوحانامی کے ہاتھ کھانا بھیج دیا کرتی تھیں ، لیکن اپنی عبادت و ریاضت میں اس قدر سرمست رہے کہ طعام دنیا کی طرف کوئی التفات نہیں فرمایا ۔      (اذکار ابرار صفحہ 97)
حضرت مخدوم الملک محبوب الہی شیخ نظام الدین اولیاء قدس سرہ  سے بیعت کے لئے دہلی پہونچنے سے قبل ہی شیخ المشائخ حضرت محبوب الہی قدس سرہ کا وصال ہوگیا۔ آپ نے حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی علیہ الرحمہ ( المتوفی 733ہجری)  کے  کاشانۂ فیض پر حاضر ہوئے  ۔حضرت  مخدوم الملک کو دیکھ کر پیر روشن ضمیر حضرت شیخ نجیب الدین فردوسی  نے فرمایا کہ "برسوں سے یہ درویش تمہاری امانت تم کو دینے کے لئے منتظر ہے"۔           (اخبارالاخیار صفحہ 118، اذکار ابرار صفحہ 98، خرینۃ الاصفیا 2/291)
حضرت مخدوم الملک قدس سرہ خلافت اور ارادت اور امانت روحانی حاصل کرلینے کے بعد اپنے وطن مالوف کی جانب مراجعت فرمائی اور ایک طویل عرصے تک خلق خدا کے لئے چشمۂ فیضان وہدایت بنے رہے۔ جب آپ محبوب حقیقی سے جا ملنے  کے قریب ہوئے اور آپ نے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے گا  جس میں تین نشانیاں ہوں گی پہلی نشانیاں وہ یہ کہ وہ صحیح النسب سید ہونگے، دوسری نشانی  یہ کہ  وہ سبعہ قرات کا قاری ہوگااور تیسری نشانی یہ کہ وہ تارک السلطنت ہوگا یہ تینوں نشایناں سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی  میں موجود تھی  تو وہاں آپ نے وصیت کے مطابق نمازجنازہ پڑھائی اور انہوں نے جو تبرکات چھوڑے تھے وہ لے لئے۔

بیعت طریقت
جیساکہ ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ آپ نے حضرت خضرت علیہ السلام کی ترغیت سے تخت و حکومت کو چھوڑا  تو یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا ۔ آپ کی روحانی تربیت شروع سے ہی حضرت خضرعلیہ السلام نے کی اور بعد ازاں روحانی پاک عاشق رسول حضرت سیدنا اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے آپ کو اذکار اویسیہ سے مشرف فرمایا ۔ پھر جب حضرت سلطان  مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ  النورانی اوچ شریف (جو تحصیل احمدپور شرقیہ ضلع بھاولپور پنجاب میں واقع ہے اوچ شریف ایک چھوٹا سا قصبہ تھا مگر طالبان علم و معرفت و روحانیت کے لئے مرکزکی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ یہاں ایک عظیم بزرگ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت  قد س سرہ (متوفی 785 ہجری)  مسند رشدوہدایت پر رونق افروز تھے آپ عالم علوم ظاہر و باطنی اور جامع صفات و کمالات تھے آپ کی ذات وبابرکات سے عجیب و غریب کرامات کا ظہور ہوا ہے) سے دہلی اور بہار کا سفر طے کرتے ہوئے مقام جنت آباد پندوا شریف  (بنگال ) پہنچے تو آپ کے مرشد کریم حضرت شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات خالدی ابن اسعد لاہوری  پنڈوی قدس سرہ النورانی (المتوفی 800ہجری)  مع خلفاء و مریدین آپ کے استقبال کے لئے شہر سے چار کوس باہر تشریف لائے ہوئے تھے اور سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کو اپنی پالکی میں سوار کرکے اپنی قیا م گاہ تک لے گئےاور فرمایا "
اے فرزند! جس دن سے تم تارک السلطنت ہوکر گھر سے نکلے ہو ، ہر منزل میں تمہارا نگران تھا اور مواصلت ملاقات ظاہری کی تمنارکھتا تھا ۔ الحمدللہ کہ جدائی مواصلت سے بدل گئی ۔
جب سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نوربخشی السامانی قدس سرہ النورانی اپنےپیر ومرشد کے دردولت پر پہونچے تو چوکھٹ پر سر رکھ کر برجستہ فارسی میں کچھ اشعار کہے جو آپ صحائف اشرفی میں دیکھ سکتے ہیں۔حضرت حضرت مخدومی  نے آپ کو بیعت فرمایا اورسلسلہ طریقت چشتیہ نظامیہ میں داخل کرلیا اور اپنے حجرۂ خاص میں لے جاکر ایک پہر کامل تنہائی میں تمام اسرارورموز سے مالامال کردیا ۔

No comments:

Post a Comment