Tuesday, 1 December 2015

سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھہ شریف قسط 01

سرزمین ہندوستان میں جن بزرگوں کے فیض قدوم سے شمع اسلام فروزاں ہوئی اور جن کے نقوش پاک کی برکت سے اس شمع کی روشنی ہر چہار سمت پھیلی ان مقدس ہستیوں میں سے ایک سلطان الاولیاء   درۃ تاج الاصفیاء عمدۃ الکاملین زبدۃ الواصلین  عین عیون محققین  وارث علوم انبیاء و مرسلین  تارک المملکت والکونین  مرشدالثقلین سلطان اوحدالدین والدنیا قدوۃ الکبریٰ غوث العالم  مخدوم سید اشرف جہانیاں جہانگیر سمنانی السامانی نوربخشی چشتی قادری  مخاطب بخطاب محبوب یزدانی شرف اللہ بفیضہٖ العالم وقدس اللہ سرہ الاعظم کی ذات با برکت ہے ۔
ولادت باسعادت
محبوب یزدانی غوث العالم مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی  (708 ہجری) میں  بمقام سمنان پیداہوئے ۔سمنان ایران کا قدیمی تاریخی شہر ہے ۔ یہاں عالم اسلام کی عظیم علمی روحانی شخصیتیں پیدا ہوئیں اور پھر انہوں نے اپنے وجود مسعود سے اس شہر کو عزت و عظمت عطا کی ان شخصیتوں میں  ابوالسلاطین  سید  ابراہیم نوربخشی السامانی ،  ابوالمکارم حضرت شیخ علاؤالدولہ سمنانی ، حضرت  شیخ ابوالحسن سکاک سمنانی ، شیخ ابوالبرکات نقی الدین علی دوستی  سمنانی ،   سلطان الاولیا ءحضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی  نوربخشی السامانی، حضرت شیخ اسماعیل سمنانی اور سلطان اعرف محمد کے اسمائے قابل ذکر ہیں یہ وہ نقوس قدسیہ ہیں جن کی وجہ سے سمناں کو شہر ت و عظمت حاصل ہوئی ۔
اہل سمنان کے مطابق اس شہر کا نام "سیم لام تھا"اور اس کی بنیاد دو پیغمبروں "سیم البنی  علیہ السلام " اور"لام النبی علیہ السلام "  نے رکھی تھی یہ دونوں حضرت نوح علیہ السلام کے خاندان سے تھے ۔ یہ دونوں پیغمبر سمنان میں کوہ پیغمبران میں مدفون ہیں اور انہی دونوں پیغمبروں کے نام پر اس شہر کا نام" سیم لام" ہو ا جو مرورایام کے ساتھ ساتھ کثرت استعمال سے سمنان ہوگیا ۔

والد ماجد
آپ کے والد ماجد  کانام مبارک سلطان سید ابراہیم سمنانی نوربخشی السامانی  قدس سرہ  ہے جن کا شجرۂ  نسب سید الشہداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے حضرت مولاعلی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہےحضرت سلطان ابراہیم نوربخشی السامانی کی  بادشاہت میں لوگ ادنیٰ سے ادنیٰ اشاروں پر پسینہ کی جگہ خون بہادنیے کو تیار رہتے تھے کیونکہ بادشاہ ابراہیم  قدس سرہ حددرجہ کریم النفس اور انسانیت نواز تھے ۔ان کا تقویٰ اوراخلاص بالعمل کا جذبہ شہر سمنان میں ضرب المثل تھا ۔ سلطان  زبردست عالم ،فاضل،  متقی، پرہیز گار اور علم دوست بھی تھے۔ آپ کے شغف علمی کا یہ حال تھا کہ امورسلطنت کے انہماک کے باوجود درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ۔سمنان کے بڑے بڑے دارالعلوم کے منتہی طلبہ کو آپ کچھ وقت  خود دیتے تھے جس میں علوم معقول ومنقول آکر آپ سے پڑھتے۔ تاریخ میں غالباً کسی بادشاہ کے علم دوستی کی ایسی مثال نہ ملے گی کہ انصرام حکومت بھی کرے اور معلم بن کر شوقین طلبہ کے ذوق علمی کی تسکین بھی کرے۔ اس علم پروری کا یہ خوش گوار نتیجہ تھا کہ آپ کے دور حکومت میں بارہ ہزار طلبہ مختلف علوم و فنون میں ماہر وفاضل نکلے۔ بارہ برس کی عمر میں آپ کے سر پر تاج حکومت رکھا گیا  اور ترپن سال کی عمر میں رہگرائے عالم میں باقی ہوئے یعنی اکتالیس  سال آپ نے تخت شاہی کو رونق بخشی ۔ زندگی کا بیشتر حصہ خدمت دین اور اشاعت علم میں صرف کیا۔ فرصت کے باقی وقت میں امورجہانبانی کا انصرام کرتے۔
لطائف اشرفی میں ہے کہ  دین سے ان کی غیر معمولی وابستگی کی یہ ایک تابناک مثال ہے کہ ان  کے عہد میں ہزاروں تشگان علم وفن منزل مقصود پر پہونچے اورعلمائے و مشائخ کے لئےانہوں  نے ہمیشہ اپنی عقیدت کا دامن پھیلائے رکھا ۔ انہوں نے مدارس اسلامیہ کی سرپرستی کے ساتھ خانقاہوں کی تعمیر و ترقی میں بھی رونمایاں حصہ لیا ، چنانچہ سمنان کی مشہور خانقاہ سکاکیہ کی دوبارہ تعمیر و توسیع آپ ہی کی دست کرم سے ہوئی جس کو ابوالمکارم رکن الدین  شیخ علاؤ الدولہ سمنانی قدس سرہ   (متوفی 736 ہجری) نے ایک عرصے تک اپنے اورادوظائف اور رشد وہدایت سے رونق بخشی ۔ خانقاہ مذکورہ پر سو دینار روزانہ خرچ ہوتے تھے۔        (لطائف اشرفی 1/78 ، 2/90-91 ، غوث العالم صفحہ 12)
حضور سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ "مکتوبات اشرفی" میں اپنے والد محترم کے متعلق لکھتے ہیں جس سے ان کے مقرب باللہ ہونے کا پتہ چلتا ہےکہ خورازم شاہ نے کسی (شخص کو) تمام فنون و فضائل سے بھر دیا اس کی شخصیت کو آراستہ کیا جملہ شیون و فضائل اس کے اندر روشن کیا جب کمالات علمی کے فیصل سے پر ہوا وجوہات فضلی کی تفصیل سے آگاہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ سلوک میں قدم رکھے کہ  ابوالعباس حضرت خضر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو راہ سلوک کی طرف مائل ہوگا تو نقباء  نوربخشیہ میں سے کسی کے ہاتھ ضرور تھامے گااور رؤسائے نوربخشیہ میں سے ہر ایک کی متعابعت کرے گا اس بشارت کے مقتضیٰ کے سبب اس اشارات کے رہنما ومتمنیٰ جان فزائے انابت حضرت ابوی صاحب التاج والادرنج وواہب الدوئج ایزنج جامع العلوم الصوری المعنوی ساطع الھموم المرتضوی والمصطفوی سید ابراہیم قدس سرہ آئےاور سلوک کا کام میں اشتغال فرمایا اطوار سبعہ کے طی میں اور مطالع انورتسعہ کے استقضاء میں کہ ان کاموں کا آخر اپنے عین ثابتہ کو پہنچنا ہے اور مراتب ثلثہ اعیان سے کہ انجام میں پہونچے۔  (مکتوبات اشرفی جلدد وم مترجم ممتاز اشرفی)
سلطان سید ابراہیم سمنانی نوربخشی کےدور سلطنت کے  متعلق اکثر مؤرخین نے نہیں لکھا انہوں نے صرف آپ کے تقویٰ و پرہیزگاری کے ذکر پر ہی اکتفا کیا لیکن بہت سی کتب ایسی ہیں جن میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ آپ کے دور سلطنت کے واقعات ملتے ہیں چنانچہ ان کتب میں معتبر کتاب صحائف اشرفی کے مصنف لکھتے ہیں:
"ابوالسلاطین حضرت مولانا سید ابراہیم شاہ سمنانی سامانی نوربخشی بالاتفاق اراکین سلطنت علی الاستحقاق تخت سلطنت عراق عجم بموجب وصیت پدر بزرگوار جلوس فرماہوئے۔ خلعت وزارت نظام الملک علاؤالدولہ برمکی کو عنایت کیا ۔ یہ نظام الملک ساتھے نظام الملک مجدالدین ابن نظام الملک سنجری سے رابطۂ محبت رکھتے تھے جس طرح حضرت ابوالسلاطین سنجر سے دوستی رکھتے تھے ۔ منصب امیر الامراء تاج الدین ایبک کو اور منصب صدارت میرمحمود قزوینی کے سپرد کیا ۔ انتظام سلطنت اور اہتمام مملکت اس خوبی کےساتھ کرتے تھے کہ بادشاہان زمانہ میں کوئی ایسا کم ہوگا آپ کے عہد سلطنت میں بڑے بڑے علماء جلیل القدر دربارشاہی میں حاضر رہتے اور توجہ شاہانہ سے نہایت مرفہ الحالی اور فارغ البالی سے زندگی بسر کرتے تھے اور عجائب و غرئب تصانیف بنام حضرت ابوالسلاطین سیدابراہیم نوربخشی  تالیف و تصنیف کرتے تھے ان میں سے کتاب مسبعیہ ابراہیم شاہی کو فقہ، اصول، کلام ،منطق، معانی ،ہیئت، اور بدائع  ان ساتوں علوم سے اس  طرح ترتیب دیا تھا کہ سات خانے جو عرض طول ہر صفحہ میں برابر ہوتے تھے بناکر مسئلہ فقہ کا اور درمیان خانوں سے بھی اسی طرح ایک ایک فن کا مسئلہ نکلتا تھا اور جس طرح مقابل عرض و طول کے خانہ سیدھا یا  ترچھا کسی گوشہ خانہائے مقابل کے لفظ لئے جائیں جب بھی ایک فن کا مسئلہ نکلتا تھا اس کتاب کا نام سبع المسابع بھی رکھا تھا کوئی فاضل درراں اور کوئی عالم زماں اس کتاب کے جواب میں متوجہ نہ ہوسکا الحاصل ایسادروازہ بندکیا کہ کسی عقل مند جامع علوم کی کنجی سے یہ دروازہ نہ کھل سکااس کتاب کے مصنف کا نام مولانا مجددالدین سمنانی ہے جیساکہ مولانا نے خود اس کتاب کی تعریف میں فرمایا ہے۔
صاحب سبع المسابع ہفت رنگ                            ہفت رنگ آوروچوں ہر ہفت رنگ
ہفت کشورربع مسکوں ساختہ                            زیرنہ گردوں  کشیدہ  ہفت رنگ
 ترجمہ: صاحب سبع المسابع نے سات رنگ سات تختوں کے لئے لایا سات کشورمسکوں بنا یا ہفت رنگ کو کشیدہ کرکے زمانے کے تابع کردیا۔
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ والد محترم  کے عہد سلطنت میں بڑی عجیب و غریب کتب تالیف و تصنیف کی گئیں جو مختلف علوم و فنون پر لکھی گئیں تھیں انہی  میں سےیہ ایک  مذکورہ کتاب"سبعہ ابراہیم شاہ" تھی جسے بعد میں سبع المسابع کے نام سے مشہور کیا گیا یہ کتا ب علوم و فنون میں اپنی مثال آپ تھی۔      ( مکتوبات اشرفی  جلد2 صفحہ 62مترجم ممتازاشرفی)
سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کی کتاب عرب اور عجم ، عراق و شام میں جو مشہور ہوئی اور ہرشخص نے اصحاب علم و فضل سے اور ارباب حکم شریعت سے سب نے پسند کیا ۔ اس کتاب کا دیکھنا اپنا دستور رکھا کہ اس کتاب کی نظیر کوئی دوسری کتاب نہیں ہوئی۔
لطائف اشرفی میں ہے کہ حضرت سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میرے والدماجد حضرت ابوالسلاطین نے اپنے زمانۂ سلطنت میں ایک ہزاراسلامی مدرسہ جاری فرمایا اور ہر مدرسہ میں دوہزار طلبہ پڑھتے تھے ۔ خیال کرنے کا مقام ہے کہ ابوالسلاطین شاہ عالی جاہ کو کس قدر توجہ تعلیم دینی کی طرف تھی ۔ آپ کے زمانۂ مبارک میں دوہزار علماء جلیل القدر صاحب فتویٰ اپنے فیض علوم سے عالم کو فیضیاب کرتے تھے۔

No comments:

Post a Comment