Tuesday, 29 December 2015

حاجی الحرمین سید عبدالرزاق نورالعین کچھوچھوی قسط3

ولادت باسعادت :
حضرت  سید عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ  غالبا 750 ہجری یا 752 ہجری میں قصبہ جیلاں میں پیدا ہوئے ۔ حضرت غوث العالم سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی خالہ زادبہن حضرت سید عبدالغفور حسن جیلانی قد س سرہ  سے منسوب تھیں ۔ یہ خاندان قصبۂ جیلاں میں معزز اور محترم تھا ۔ خانوادۂ سرکار غوث الاعظم کی نسبت کی وجہ سے اس خاندان میں چار چاند لگ گیا تھا ۔ یہ علماء  ومشائخین کا گہوارہ تھا ۔ اس قصبہ کی دھرتی کو سرکارغوث الاعظم کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل تھا ۔
شیخ الاسلام والمسلمین  حضرت مولانا الشاہ امام احمد رضا خاں  فاضل بریلوی قد س سرہ فرماتے ہیں کہ
تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا
توہے  عین نورتیرا سب گھرا نا نور کا
یہ نوری گھرانا جہاں سے ہمیشہ رشد وہدایت کی شمع روشن تھی یہی جگہ مخدوم الآفاق سید عبدالرزاق نورالعین کا مولد و مسکن تھا اسی جگہ آپ نے اپنی عمر کے کچھ ایام  گزارے۔
حضرت غوث العالم محبوب یزدانی سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ سیاحت عالم فرماتے ہوئےحامہ تشریف لے گئے اور خانواۂ غوثیہ کے مہمان ہوئے۔ حضرت سید شاہ  عبدالغفور حسن الحسنی الحسینی کے ایک سعادت مند اور بااقبال صاحبزادے سید عبدالرزاق تھے جن کو حضرت سے بے حد انس ہوگیا تھا اور برابر حاضرخدمت رہا کرتا تھا اور حضرت شاہ سمناں  رضی اللہ عنہ بھی ان کی اس سعادت مندی سے بہت ملتفت تھے سیدزادے کی عمر اس وقت بارہ ہی سال کی تھی مگر ان کی پیشانی سے نورولایت ضو فگن تھا۔
حضرت غوث العالم رضی اللہ عنہ نے جب ارادۂ سفر ظاہر کیا جو حضرت سید عبدالرزاق نے اپنے والدین سے حضرت کی ہمرکابی اور خدمت کی اجازت چاہی۔ شفقت پدری اورماں کی مامتا بیتات ہوئی اور قرۃ العین کو بہت طرح سے چاہا کہ میرے ہی ہوکر گیلان میں رہیں مگر جس کو عالم کا نورالعین ہونا تھا وہ صرف باپ کی قرۃ العینی پر کیسے قناعت کرتے۔ جب صاحبزادے کے عزم مصمم کو والدین نے دیکھااور انہیں یقین ہوگیا کہ اگر بخوشی اجازت نہ دی گئی توبغیر اطلاع کے چلے جائیں گےتو بالآخر ہاشمی خون نے جوش مارا اور سوچا کہ کمسن سید تو معرفت الہی کا ایسا متوالا ہے کہ اس کم عمری میں ترک علائق پر آمادہ ہوگیا تو میں ان کے طلب کی راہ میں کیوں رکاوٹ بنوں ۔
چنانچہ پہلے تو اپنی اہلیہمحترمہ کو آمادہ اور ہم خیال بنایا اور پھر صاحبزادے کا ہاتھ پکڑ کر حضرت مخدوم سمناں کی خدمت میں آئے اور چھوٹے سید کی بیتابی شوق اور طلب  مولیٰ کے جذبہ کا ذکر کرتے ہوئے عرض کی کہ میں اس کمسن بچے کو آپ کی خدمت کے لئے نذر کرتا ہوں اور اپنے حقوق کو معاف کرتا ہوں ۔ اسی طرح عفیفہ والدہ  نے بھی اپنے جگر کے گوشے کو سپرد کیا اور  کہا کہ میں نے بھی اپنے حقوق معاف کئے اور یہ بچہ ہم دونوں کا نذرانہ ہے اور حضرت نے صاحبزادے کو اپنی فرزندی میں   بصد جان قبول فرمالیا ۔
سنوات الاتقیاء  میں ہےکہ حضرت محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نورالعین پاک کو اپنے ساتھ سمنان لے گئے اور وہاں اپنی بڑی بہن کا دودھ پلوایا جو طرح طرح کے فضائل واخلاق سے آراستہ تھیں تاکہ ظاہری نسبت بھی ظاہر ہوجائے ۔جب سید عبدالرزاق نورالعین کے دہن مبارک میں بہن کا دودھ ڈالا گیا تو حضرت نے فرمایا مجھے اس فرزند سے یہ نسبت اس سے زیادہ پیاری ہے کہ میری خالہ زادہ بہن حضرت حسن گیلانی کی زوجہ ہے اور اس کے بطن سے یہ فرزند پیدا ہوا  اور اب ہمارے اور اس کے درمیان  جو نسبتیں ہیں  اس کی شرح قطعی ناممکن ہے۔ (سنوات الاتقیاء  ،لطائف اشرفی 65/619)
چہ حاجت نسبت شیراے برادر
کہ دارم نسبتے  دیگر بہ از شیر
اے بھائی مجھے دودھ کی حاجت نہیں ہے کیونکہ میں دودھ کی نسبت سے بہتر نسبت رکھتا ہوں۔
چونور واحد از خورشید تابد
دہد از مشرق خاور بتاشیر
جب نور واحد آفتاب سے چمکتا ہے تو خراسان کے مشرق سے صبح کی روشنی نمودار ہوجاتی ہے۔
ہماں نوریست از خورشید رخشاں
کہ آن رادر حسین و باحسن گیر
وہی ایک نور ہے جو آفتاب سے رخشاں ہے اسی کو حسین میں حسن سے حاصل کر۔
سبحان اللہ ! سید عبدالرزاق نورالعین کو حضرت سے کتنی محبت تھی کہ انہوں نے حضرت کی محبت میں اپنا گھر بار وطن عزیز و اقارب سب کو چھوڑدیا اور ہمہ وقت حضرت کی خدمت میں رہنے لگے ان کے ہر حکم کو بجا لانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے اسی لئے حضرت بھی ان سے بڑی محبت فرماتے تھے۔
اسی سفر میں حضرت غوث العالم محبوب یزدانی کا صالحہ دمشق کے راستے میں گزر ہوا ۔ یہاں آپ کو بیماری پیش آئی اور اس طرح کی بے تابی رونما ہوئی کہ لوگوں کی امید قطع ہوگئی ۔ کچھ دیر حضرت بے ہوشی کی کیفیت میں رہے ۔ اصحاب میں سے حضرت ابوالمکارم ، خواجہ ابوالوفا، شیخ علی ،شیخ کبیر، اصیل الدین  اور شیخ سیف الدین وغیرہ بہت سے عزیز حاضر تھے اور یہ مذکورہ اصحاب کسی مقام اعلیٰ کے متوقع تھے اور ان کے دل میں ولایت عالی کی تمنا پیدا ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ ہوش میں آئے اور فرمایا کہ یہ تکلیف دینے کا مقام ہے؟
مدت گزر گئی کہ وہ حالت دوسرے کو تفویض ہوچکی ہے اور وہ فرزند نورالعین کے حصے میں آچکی ہے۔ خبردار!کبھی اپنے آپ کو اس فکر میں ڈالو۔
حق تعالیٰ نے اس بیماری سے آپ کو شفائے کلی عنایت فرمائی ۔ جب صحت کلی حاصل ہوگئی تو آپ نے حضرت نورالعین کو طلب فرمایا اور ہرہرطرح کے لطف کے ساتھ شفقت انگیراور تسلی آمیز باتیں ان کے بارے میں نثار فرمائیں:
مرا ہرچہ یزداں  عطاکردہ  بود
کہ لطف و عنایت دریں روزگار
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جو کچھ اپنی عنایت و مہربانی سے مجھے عنایت فرمایا تھا۔
ہمہ از سر لطف و احساں شدہ
بفریق بلند تو  چوں درنثار
ازروئے لطف و احسان  سب کاسب تیرے بلند قد پر موتیوں کے مانند نثار کردیا ۔

No comments:

Post a Comment