عظیم الشان بڑ کا
درخت
قصبہ
نظام آباد کے پاس ایک گاوں ہے۔جس کا نام دو بتیہا ہے۔اس میں ہندو اور مسلمان دونوں
آباد تھے۔اور اتفاقاً حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ اس گاوں میں تشریف لےگئے۔ خود مسلمانوں
کی مسجد میں اترے اور ہمراہیوں کے واسطے خیمے نصب ہوئے۔گاوں چھوٹا تھا۔اور بازار
اس میں نہیں تھا۔ وہاں کے مسلمانوں نے کم ہمتی کی۔ حضرت کی دعوت کا کچھ سامان نہ
کیا۔حضرت کے ہمراہی رات کو بھوکے سوئے رہے۔ جب صبح ہوئی دوسرے فرقہ ہندو میں سے جو
غریب تھا اس شخص کو معلوم ہوا کہ رات کو فقرا نے فاقہ کیا۔ حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے
سامنے آکر نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کرنے لگاکہ اگر تھوڑی حضرت ٹھہر جائیں تو میں
کچھ ناشتہ کا سامان کروں۔حضرت نے اس کی استدعا قبول فرمائی ۔وہ شخص گیا اس کی صرف
ایک گائے تھی۔اور کچھ اس کے پاس نہ تھا ۔حضرت محبوب یزدانی کے پاس لاکر کہا کہ اس
کو ذبح کراکر ہمراہیوں کے واسطے ناشتہ پکوائیے اور بڑی کوشش اور تردد سے تمام
ہندووں نے مل کر دو تین من آٹا بھی پیش کیا۔دودھ دہی گھی مصالحہ بھی لاکر باورچی
کو دیا۔باورچی نے جب کھانا تیار کیا جملہ پانچ سو درویشوں کو تقسیم کیا گیا۔لیکن
کھانا کم نہ ہوا۔کھانے کے بعد ہندو آیا اور ادب سے کنارے کھڑا ہوا۔
محبوب
یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ نے فرمایا کہ فرقہ مسلمان کی دولت ہم نے تجھ
کو دی۔اور تیرےسات بیٹے پیدا ہوں گے۔
تھوڑی
ہی مدت میں حضرت کا فرمان ظاہر ہوا۔ جماعت مسلمان مفلسی کے سبب گاوں
چھوڑ کر بھاگ گئے۔
محبوب
ربانی سرکار اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ صحائف اشرفی میں میں لکھتے ہیں کہ فقیر
اشرفی جب اس گاوں میں گیا تو ایک زمیندار جس کا نام پنی راو تھا
ملااور کیفیت دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک تو ہم لوگ حضرت کی دعا سے
بکمال فارغ البالی بسر کرتے تھےمگر اب ہم لوگوں پر ایک خطا کی وجہ سے تکلیف آنے
لگی ۔
حضور
اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جب میں اس زمیندار جس کا نام پنی راؤ
تھا ملا اور پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ جب حضور محبوب یزدانی
ہمارے گاوں میں ٹھہرے تھے تو بڑی کی شاخ سے مسواک کی اور اس کو زمین میں دبا دیا
اور یہ فرمایا کہ یہ ہماری نشانی رہے گی۔ چنانچہ اس مسواک سے ایک عظیم الشان بڑ کا
درخت پیدا ہوا۔اور اس کی شاخوں سے جہاں جہاں ریش زمین تک لٹکی اس میں جڑ نکل آئی
۔بڑھتے بڑھتے یہ درخت بارہ بیگہ کے حلقے میں پھیل گیا۔ہماری قوم والے اس درخت کے
پتے تک نہیں چھوتے تھے ۔اب ہماری قوم والوں نے اس درخت کی لکڑی کاٹنا شروع کی۔ پانچ
بیگہ تک کاٹ کر صاف کردیااور اس جگہ میں کھیتی کرنے لگے۔اس وقت وہ درخت سات بیگہ
کے حلقے میں موجود ہے۔
سرکار
اعلی حضرت اشرفی میاں قدس سرہ فرماتے ہیں۔یہ واقعہ 1326 ہجری کا ہے جب اس فقیر نے
اس کی زبان سے سنا۔تو میں نے کہا کہ تم لوگوں سے بڑی غلطی ہوئی ۔جب حضرت نے تم کو گاوں بخش دیا
تو جہاں تک بڑ کا درخت حضرت کی مسواک کی نشانی تھی اس کو نہ کاٹتے۔
اور
اعظم گڑھ میں ایک معتبر شخص کی زبان سے فقیر نے سنا کہ اعظم گڑھ کے ایک کنجڑے
نے تھوڑی زمین موضع دو بیتہا کی نیلام کے ذریعہ خرید کی ۔ایک سال بھی گزرنے نہ
پایا تھا کہ وہ ایسا تباہ ہوا کہ کہیں اس کے مال و دولت کا پتہ نہ لگا۔
آگ کیوں نہیں لگتی؟
محبوب
یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ خطہ جونپور سے چل کر موضع سرس جو اسٹیشن شاہ
گنج کے قریب ہے۔آئے اور وہاں ایک بزرگ شیخ نصیر الدین سرسی رہتے تھے۔ صاحب کمالات
عالی مقام تھے۔اس جوار کے آدمی آپ کے ساتھ اعتقاد رکھتے تھے۔انہوں نے ایک خانقاہ
بھی بنائی تھی۔ محبوب یزدانی جب ان کی خانقاہ میں آٹھہرے کسی قدر حضرت کی خدمت
گزاری میں کم توجہی کی جس سے خاطر مبارک میں ملال پیدا ہوا۔فرمایا کہ جس گاوں میں
ایسے درویش رہتے ہیں آگ کیوں نہیں لگتی۔زبان مبارک سے یہ بات نکلنی تھی کہ گاؤں
میں آگ لگ گئی۔اور حضرت محبوب یزدانی اس گاوں سے باہر تشریف لے آئے۔تمام گاؤں جل
گیا۔شیخ سرسی حضرت کے پیچھے دوڑتے ہوئے ایک کوس تک گئے۔حضرت کے سامنے بہت عاجزی کی
اور دوبارہ گاؤں میں واپس لائے۔دو تین گھر جو جلنے سے بچ گئے تھے۔وہیں حضرت کو
ٹھہرا یا۔اور کھانے کا سامان مہیا کیا۔تھوڑی دیر میں جب کھانا تیار ہوا اور حضرت
کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا۔حضرت کے چہرہ مبارک پر آثار خوشی ظاہر ہوئی۔شیخ
سرسی نے بہت معذرت کی ۔
حضرت نے
فرمایا کہ یہ امر اتفاقاً حسب مرضئ خدا واقع ہوااور جس مقام پر آگ لگی ہے وہاں پر
کوئی آباد نہ ہو۔اس جگہ کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر آباد ہوں۔
حضور
اعلی حضرت اشرفی میاں فرماتے ہیں ۔فقیر اشرفی جب شاہ گنج میں حاجی الہی بخش رئیس
کے مکان پر فروکش ہوا۔موضع سرس وہاں سے ایک میل کے فاصلہ پر تھا۔حضرت شیخ سرسی کے
مزار پر فاتح پڑھنے گیا۔آپ کے مزار پر ایک جنگلی درخت جما ہے جس کا پھل نہایت
شیریں ہوتا ہے۔اہل دیہات اس کو تبرکاً کھاتے ہیں ۔
وہاں کے
لوگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ کے رخصت ہونے کے بعد حضرت شیخ سرسی نے اپنے
مٹی کے بدھنی (لوٹا ) کو سات ٹکڑے کرکے سات مقام پر ڈالا ۔اس وقت سےاسی سات مقام پر موضع مذکور کے سات پورے آباد
ہیں ۔
مورتی چلنے لگی
ایک دن حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کو جوگیوں کے ایک بت خانے میں اسلام کی
حقانیت پر مناظرہ کرنا پڑا ان لوگوں نے آپ کی ولایت کی پکی دلیل ( برہان قاطع) طلب کی ۔ آپ نے بتوں میں سے
ایک پتھر کی مورتی کو اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا ۔ وہ اسی وقت آپ کے قدموں
میں آکر گری اور حضرت کی ولایت کی تصدیق کا اعلان کرنے لگی اس کرامت کو
دیکھ کر کئی ہزار ہندومسلمان ہوگئے۔ (معارج الولایت)
No comments:
Post a Comment