جادوگرنی سور ہوگئی
غوث
العالم محبوب یزدانی سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کو کانورا جانے کا اتفاق ہوا اکثر احباب منع
کرتے تھے مگر تقدیر الہی وہاں جانے کے لئے تھی ۔ فقیرمع گروہ درویشاں ہمراہی وہاں
جاکر ٹھہرا اس وقت وہاں مسلمان بہت کم تھے ۔ خوب صورت عورتیں جادوگر بہت تھیں ۔
اتفاقا آپ کے ایک مرید حضرت قاضی محمد حجت پر ایک جادوگرنی عورت عاشق ہوگئی ۔ حضرت
محبوب یزدانی قاضی حجت کو اس طرف توجہ کرنے سے منع کرتے تھے مگر وہ باز نہ آئے ۔
جب حضرت نے وہاں سے واپسی سفر کی تیاری
اسی جادوگرنی نے اپنے جادو سے قاضی حجت کو گائے بناکر پوشیدہ کیا ۔ جب حضرت کے
ہمرائیوں نے انکو تلاش کیا اور وہ نہ ملے۔ حضرت محبوب یزدانی کو اپنے کشف سے معلوم
ہوا کہ قاضی حجت کو گائے بناکر ایک جادوگرنی نے پوشیدہ کر رکھا ہے۔
آپ نے فرمایا
وہ عورت سُوّر ہے جس نےمیرے فرزند کا گائے بنا یا ہے۔ اسی وقت
وہ جادوگرنی سور ہوگئی اور اس کی ماں روتی ہوتی ہوئی خدمت عالی میں آکر عرض کرنے
لگی۔
آپ نے
فرمایا کہ میرے فرزند قاضی حجت کو گائے بنا لیا ہے تو جا اور قاضی حجت کے اوپر سے
جادو اتار۔ جب وہ قاضی صاحب سے جادو اتار کر صورت بشری میں کرکے حاضر لائی فرمایا
کہ جا اب تیری لڑکی بھی اپنی صورت پر آگئی ہوگی۔ یہ فرماتے ہی وہ جادو گرنی آدمی ہوگئی ۔ اس کے
بعد ہمیشہ حضرت محبوب یزدانی ملک کانوراکے سفر کرنے سے نصیحت کرتے ہیں۔
باادب جانور
جب حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ کے پیرومرشد خواجۂ خواجگان حضرت مخدوم علاء الحق گنج نبات
پنڈوی بنگالی قدس سرہ نے فرمایا کہ فرزند اشرف تم کو معلوم ہے کہ تمہارے قبر کی
جگہ کہاں ہے۔تم ولایت جونپور کی طرف جاؤ وہاں ہی اسی جوار میں تمہارا مقام اور جائے قبر
ہے۔
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ نے عرض کیا کہ آپ مجھ کو خطۂ جونپور کی طرف بھیجتے ہیں اور
مجھ کو اپنے کشف سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں ایک شیر رہتا ہے۔
آپ کے
پیرومرشد نے فرمایا کہ کچھ اندیشہ کی بات نہیں ۔وہاں ایک شیر بچہ تم کو ملے گا وہی
اس شیر کے لئے کافی ہے۔چنانچہ جب حضرت نے مقام پنڈوہ شریف خانقاہ سے رخصت ہوکر مع
حشم و خدم شاہانہ قصبہ ظفر آباد متصل شہر جونپور میں نزول فرمایا ۔اور مسجد ظفر
خاں میں اترے۔ اسباب سفر وہاں ہی رکھا گیا۔حضرت کے ہمراہ اونٹ گھوڑے خچر جوتھے ۔ ان
کو قلندروں نے مسجد کے صحن کے اندر باندھنا شروع کیا۔ اس خبر کو سن کر چند علماء
اور طلباء بغرض استفسار آپ کی خدمت عالی میں حاضر ہوئے۔ چاہتے تھے کہ کچھ عرض کریں
اسی اثناء میں ایک گھوڑے نے گردن سے اشارہ کیا۔ حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر
سمنانی قد س سرہ نے فرمایا یہ گھوڑا لید کرے گا۔ اشارہ کرتا ہے اس کو مسجد
کے باہر لے جاؤ۔پھر ایک اونٹ نے اشارہ کیا ۔فرمایا کہ یہ پیشاب کرے گا۔اس کو بھی
باہر لے جاؤ۔غرض کہ اسی طرح چند جانوروں نے اشارے کئے۔
محبوب
یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ نے ان لوگوں کی طرف جو حاضر ہوئے تھے متوجہ
ہوکر فرمایا یہ جانور پاک ہیں ۔صحن مسجد میں ان کا لانا ممنوع نہیں ۔چونکہ ہمارے
ساتھ رہنے والے جانور باادب ہیں اپنی حوائج سے خبر کردیتے ہیں ۔تو ایسے جانوروں کا
مسجد میں لانا کیا قباحت ہے۔ہاں مقتضائے ادب یہ ہے کہ یہ جانور مسجد میں نہ لائے
جائیں ۔ اور معترضین نادم اور پشیمان ہوکر چلے گئے۔
زندہ آدمی کی نماز جنازہ
مسجد
ظفر خاں شہر جونپور میں محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ مع خلفاء و مریدین کلمات سر و معرفت الہی
بیان فرمارہے تھے۔کہ کچھ لوگ ایک زندہ آدمی کو ایک چارپائی پر لٹائے ہوئے اوپر سے
چادر اوڑھاکر لائے اور روروکر عرض کرنے لگے۔کہ حضرت اس کی نماز جنازہ پڑھادیجئے۔
یہ نقال
تھے جن کو ہندی میں بھونڈا کہتے ہیں ۔اس
غرض سے زندہ آدمی کو مردہ بناکر لائے تھے کہ جب حضرت اس کی نماز جنازہ
پڑھا دیں گے تو آدمی چارپائی سے اٹھ کر بھاگے گا جس سے ہم مذاق اڑائیں گے۔
محبوب
یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ نے ایک خلیفہ سے فرمایا کہ ادائے نماز جنازہ
فرض کفایہ ہے ۔تم جاکر اس کی نماز جنازہ پڑھا دو سب کو جانے کی ضرورت نہیں ۔
ایک
نقال نے میت کا وارث بن کر نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دی۔
جب حضرت
کے خلیفہ نے نماز جنازہ کے لئے تکبیر اولی اللہ اکبر کہکر کان تک ہاتھ
اٹھائے۔ ادھر اس کی روح پرواز کر گئی۔
نماز
جنازہ کے بعد حضرت کے خلیفہ نے فرمایا کہ میت کو اٹھاؤ اور لے جاکر دفن کردو۔
وہ نقال
تو اس کے اُٹھ کر بھاگنے کے منتظر
تھے۔مگر اس کی روح پرواز کرچکی تھی۔سب لوگ اپنی اس حماقت پر پشیمان ہوئے اور معافی
مانگی ۔
محبوب
یزدانی غوث العالم حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ نے فرمایا کہ اب کچھ نہیں ہوگا لے جاؤ اس کو
سپرد خاک کردو ۔ اس کرامت کی شہرت نے تمام علاقہ کے لوگوں کو آپ کی عقیدت
مندبنادیا ۔ (مراۃ الاسرار )
مہمان کے ساتھ ادائے مخالفت
ایک دن
محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ مسجد ظفر خاں میں رونق افروز
تھے۔اصحاب بھی ساتھ تھے۔ایک بار حاضرین کو سخت گرمی محسوس ہوئی کہ جیسے مسجدمیں
آگے برس رہی ہو۔ایک دم سب نے سکوت کیا آخر تاب نہ لاسکے ۔سب نے باری باری مسجد سے
باہر نکلنا شروع کیا۔سامنے کوئی باقی نہ رہا۔حضور محبوب یزدانی نے تبسم فرمایا
۔اور فرمایا کہ یہ آتش چراغ سے ہے اس کا بجھا دینا آسان ہے۔تھوڑی ہوا میں سرد
ہوجاتا ہے ۔ایک خادم سے فرمایا کہ پانی کا لوٹا لاو۔کہ تم لوگوں کی تکلیف جاتی رہے۔بموجب
فرمان ،خادم نے زمین پر پانی گرایا ۔حضرت حاجی چراغ ہند پانی میں غرق ہونے
لگے۔اپنے پیر کو یاد کیا ۔اور انہوں نے اپنے پیر کو۔درجہ بدرجہ یہاں تک نوبت
پہونچی کہ روحانیت پاک حضور پرنور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان جاری
ہوا کہ۔تم کو مناسب نہ تھا کہ مہمان کے ساتھ یہ ادائے مخالفت کرو۔اگر کچھ نہ تھا
تو اتنا تو سمجھتے کہ میرا فرزند تھا۔اس کی رعایت تم کو کرنی چاہیئےتھی۔اب
اٹھو اور جاو اور ان سے معافی طلب کرو۔
حضرت
حاجی چراغ ہند ادھر اپنے گھر سے نکلے ۔ادھر حضور محبوب یزدانی غوث العالم کے پاس
تمام اکابرین کی روحانیاں تشریف لائیں ۔آپ نے فرمایا کہ میرا خیال سے ان کی ولایت
میں قیام کرنے کا نہیں ہے۔تمام روحانیہ اکابرین سے آپ نے معذرت کی۔اور یہ فرمایا
کہ درمیان خاندان چشت اور سہرورد جہاں کے ہیں ۔ایک حد مقرر کی جاتی
ہے۔بس اب درمیان جانبین دریائے گومتی حد فاصل قرار دی جاتی ہےکہ کوئی اپنی
حد سے متجاوز نہ ہو۔
حضرت
محبوب یزدانی مسجد سے نکل کر حضرت حاجی چراغ ہند کے پاس جانا چاہتے تھے ادھر وہ
تشریف لارہے تھے۔راستے میں دونوں کی ملاقات ہوئی مصافحہ اور معانقہ ہوا۔
پھر
حضرت حاجی چراغ ہند نے حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ کی دعوت کی اور انہیں اپنے گھر لے گئے۔ (لطائف اشرفی)
سرجو ندی کے پانی پر مصلی
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ ایک دن قصبہ چاندی پور بڈہڑ میں بغرض ادائے نماز جمعہ تشریف
لے گئے۔اس قصبہ میں ایک بزرگ شیخ زاہد نام عابدانہ اور زاہدانہ زندگی بسر کرتے
تھے۔اور ان کی یہ کرامت نہایت مشہور تھی کہ اکثر رات کو حجرے سے باہر نکلنا جاتے
ہیں ۔جب لوگ آپ کو تلاش کرتے تو آپ کو دریائے سرجو کے پانی پر مصلی بچھائے
ہوئے نماز پڑھتے دیکھتے ہیں۔ اسی کرامت کی شہرت سے جوارودیار کے آدمی ازحد ان کے
معتقد تھے۔
حضرت
سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س سرہ بھی شیخ زاہد کی ملاقات کے لئے تشریف گئے۔ دیکھا کہ آپ دریا
کے درمیان مصلی بچھائے نماز پڑھ رہے ہیں ۔حضرت محبوب یزدانی بھی دریا کے اوپر پیر
رکھتے ہوئےشیخ زاہد کے مصلی کے پاس پہونچے اور بمقتضاء شفقت بزرگانہ ان کی پیٹھ پر
دست شفقت پھیرنے لگے ۔اور فرمایا کہ تجھ پر خدا تعالی کی رحمت ہو کہ عرفان اور
آراستگی تم نے اس قدر بہم پہونچائی جیسا کہ بزرگوں کا ددستور ہوتا ہے۔
حضرت
شیخ زاہد بھی اپنی پیری اور زہد پر نازاں تھے۔وہ محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف
جہانگیر سمنانی قد س سرہ کی پشت
مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگے اور دعا کے کلمات کہنے لگے۔
حضور
محبوب یزدانی کو ان کی یہ حرکت ناپسند ہوئی۔فرمایا کہ ہندوستان کے آدمی عجیب گستاخ
ہوتے ہیں ۔تھوڑی کرامت میں مغرور ہوجاتے ہیں اورایسے لوگ چند روز میں گمنام ہوجاتے ہیں ۔
تھوڑے ہی
دن میںشیخ زاہد غائب ہوگئے ۔کسی نے
نہ جانا کہ کیا ہوا۔کہاں گیا۔ان کی قبر کا بھی نشان نہ رہا۔
زبان
مبارک سے اس وقت حضرت نے یہ بھی فرمایا تھا کہ تیری قبر گدھوں کی چراگاہ
میں ہوگی۔سناگیا کہ اکثر دھوبیوں کے گدھے جب گم ہوجاتے ہیں تو دھوبی اس طرف تلاش
کو نکلتے ہیں جدھر زاہد کی قبر بے نشان تھی ۔اور یہ بات بھی زبان مبارک سے نکلی کہ
یہ قصبہ کبھی آباد ہوگا اور کبھی ویران ہوجائے گا۔یہ بات بھی دیکھی گئی۔
لوہا کھرا سونا ہوگیا
قدوۃ الکبریٰ
حضرت سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی قد س
سرہ کا ایک سفر میں سیلان کے راستہ پر گزر ہوا اور ایسے جنگل میں سابقہ پڑا کہ چند
کوس تک بالکل آبادی نہ تھی۔ دو تین دن راستہ کو نے سامان کے طے کئے ۔ یہاں تک کہ
بعض ساتھی بے قرار ہوگئے ۔ حضرت نے مریدوں کی بے چینی سے آگاہ ہوکر فرمایا کہ لوہے
کا ٹکڑا لاؤ۔ ایک قلندر کے پاس لوہے کی زنجیر تھی لاکر سامنے رکھ دی۔ آپ نے کچھ
دیر اس پر نظر کی تو وہ کھرا سونا ہوگیا ۔ بابا حسین خادم کو فرمایا کہ جاؤ یہاں
سے پانچ چھ جریب کے فاصلہ پر ایک بازار ہے جس کو سوق المجانین کہتے ہیں۔ اس
سونے کوخوردہ کرا لاؤاور ہمرائیوں کی تین دن کی خوراک کے مقدار بیچواور باقی پانی
میں ڈال دو۔
جب بابا
حسین سوق المجانین میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت دریتیم کھڑے ہیں اور
بازار کا نظارہ کررہے ہیں اور ان کے دست مبارک میں دُرَّہ ہے ۔ بابا حسین
متحیر ہوئے کہ آپ کو حضرت محبوب یزدانی قد س سرہ نے ولایت اسلام اور اپنے مقام کی
نگرانی سپرد کرکے آئے تھے کس طرح آپ یہاں آئے اور ہاتھ میں یہ دُرَّہ کیساہے؟
فرمایا کہ چپ رہواور اولیاء اللہ کو نہ دیکھوکہ
ان کا آنا جانا آنکھ جھپکتے ہی کو ئی نادر امر نہیں ہے۔ حضرت نے مجھ کو سوق
المجانین کا انتظام دیا ہے اس لئے ہاتھ میں درہ لئے آیا ہوں جو اس گروہ کے طریقے
کے خلاف کرے اور ان کی حالت کے خلاف بولے اس کو سزادوں اور جب کبھی مجھ کو اور اولیاء اللہ کو کھانے پینے کا شوق
ہوتا ہے تو اس سوق المجانین میں آتے ہیں اور جوان کو پسند ہوتا ہے اس کو کھاتے ہیں
۔ تم جس کام کے لئے آئے ہو کر واور جاؤ کیوں کہ حضرت محبوب یزدانی تمہارے منتظر ہیں۔
بابا
حسین کو جوکچھ فرمایا تھا انہوں نے کیا اور حضرت کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا کہ
تین دن کی خوراک لوگو ں کی لے آیا ہوں اور باقی سونا پانی میں ڈالدیا ہے۔ مگر امیر
تنگر قلی نے دل میں سوچا کہ سونا کیوں ضائع کیا ۔شاید کسی فقیر کے کام آ جاتا۔ اس
خطرہ کے آتے ہی حضرت نے ان پر جلال فرماکر فرمایا کہ تجھے کیا واسطہ جو خدا کے کام
میں دخل دیتا ہےاور ارحم الرحمین کو بندہ
پروری سکھاتا ہے۔ اس درجہ امیر تنگر قلی
کے نسبت عنایت فرمایا کرتے تھے کہ بیان نہیں ہوسکتا ۔ امیر تنگر قلی شرمندہ اورپیشمان ہوئے ۔ محفل شریف کی حاضری تین دن تک معزول
رہے۔ آخر حضرت نورالعین پاک کو پناہ بنایا اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی
طلب کی اور قدیم عنایتوں کے مقام پر جلد پہونچ گئے۔
No comments:
Post a Comment