Tuesday, 1 December 2015

کرامات سید سلطان مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قسط 20

 نماز جنازہ کی امامت
770 ہجری کا واقعہ ہے آپ سفر حج سے واپس تشریف لارہے تھے ، گلبرگہ شریف میں ایک پر فضامقام پر قیام فرمایا ۔ (یہی وہ مقام ہے جہاں بعد میں حضرت بندہ نواز گیسودراز کی ابدی خواب گاہ اور خانقاہ بنی)  حضرت کے خیمہ خاص میں سوائے حضرت حاجی  عبدالرزاق نورالعین  قدس سرہ کے  کسی  اور کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ۔ اتفاق سے اس مرتبہ حضرت شیخ الاسلام بھی آپ کے ہمراہ تھے ۔ حسب معمول نے خلوت میں حضرت شیخ الاسلام کو طلب فرمایا ،  جب وہ حاضر ہوئے تو دیکھا حضرت پر ایک عجیب کیفیت طاری ہے وہ حد درجہ جوش اضطراب دیکھ خوف زدہ ہوئے اور خیمہ سے باہر تشریف لے آئے ۔ تمام اصحاب خیمے کے گرد جمع ہوگئے لیکن خوف کے مارے اند ر جانے کی ہمت نہ ہوئی ۔  بہت ہمت کرکے مخدوم زادہ حضرت شیخ  عبدالرزاق نورالعین قد س سرہ اندر تشریف لے گئے اور استفسار کرنے پر حضرت نے فرمایا کہ آج یکم  رجب المرجب770 ہجری ہے اور غوث زمانہ  اور قطب یگانہ جن کی زیارت میں نے جبل الفتح میں  کی تھی وصال فرماگئے اور تاج غوثیت کے لئے سارے بزرگان اور مقتدایان زمانہ امید رکھتے تھے  اور پوری کوشش کررہے تھے  کہ یہ عہدہ اور  مبارک منصب ہمارے سپرد ہو ۔ کسی بدن پر یہ قیمتی لباس اور کسی سرپریہ  تاج عظمت ٹھیک نہیں اترا ۔  اللہ تعالیٰ نے بے انتہا لطف اور غیر منتہائی کرم سے فقیر کے بدن کو اس لباس کے لئے تجویز فرمایا ۔اور  آج سےدرجہ ولایت کا عہدہ دینا اور معزول کرنا اس فقیر کو عطا ہوا ہے اور دورۂ عالم کو میرے سپر دکیا ہے۔
 مزید فرمایا کہ اس وقت جب مجھ کو حالت پر جوش پیدا ہوئی  چشم زدن میں غوث کے جنازہ میں پہونچ گیااور ان کی تجہیز وتکفین کے بعد ہم نے ان کی نماز جنازہ  کی امامت کی  اور ان کے نماز جنازہ کی چارپایہ  کو  اس فقیر نے اور دوامامان ماتحت غوث عبدالرب اورعبدالملک اور ایک اوتاد نے اٹھایا اور ان کے مقام پر ان کو دفن کیا ۔
سبحان اللہ کیا شان تصرف  ہےکہ حضور گلبرگہ شریف میں قیام پزیر ہیں مگرکہیں اور نماز جنارہ کی امامت فرمارہےہیں۔

تم شعر کیوں نہیں کہتے؟
حضرت امیر خسرو قابل و فاضل شعرائے کاملین و متقدمین کا خلاصہ تھے ۔ ان کے ایک فرزند تھے جن کی طبیعت اپنے والد پر تھی ۔ انہیں احمد خلیل کہتے تھے اور ان کا ایک فرزند تھا ۔ والد نے ہرچند کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے اور بیٹے کی طبیعت گوئی طرف مائل نہ ہوئی ۔ ایک مرتبہ حضرت کا گرزوہاں ہوا ۔ امیرخسرو آپ کو اپنے مکان پر لے آئے اور ضیافت کا سامان فراہم کیا ۔ شہر کے دوسرے بزرگ بھی اس ضیافت میں آئے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو آپ کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ لڑکا بے حد کند طبیعت واقع ہوا ہے۔ ہر چند کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ اب درویشوں کے نظر کی امید وار ہے۔ حضرت کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی ۔ کچھ وقت اچھی کیفیت میں رہے ۔ جب اس کیفیت کا اثر مبارک چہرے اور پیشانی پر نمایاں ہوا تو فرمایا  کہ کون کہتاہے کہ یہ لڑکا کند طبیعت ہے یہ تو باپ سے زیادہ اچھا نظر آتاہے۔ یہ جملہ زبان مبارک سے نکلتے ہی لڑکے کو عقل و ہوس مل گئے اور وہ باتیں کرنے لگے ۔
 چنانچہ اہل مجلس نے محسوس کیا کہ اس لڑکے کی باتیں بخلاف ماضی دوسری کیفیت ظاہر کررہی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب شعر گوئی تمہاری میراث ہے تو تم شعر کیوں نہیں کہتے؟
 اسی وقت یہ اشعار  حضرت کے شان میں زبان پر آئے:
آفریں  بر  خلیق طبع  کزو
گوہر  انگیز  و جو ہر  افشانیم
اثر    تربیت     بود      کزوے
ہم سخن گوے وہم  سخن  داینم
 ترجمہ: اس خلیق طبیعت پر آفریں ہے جس کے باعث ہم موتی اچھالتے اور جوہر بکھیرتےہیں۔ یہ ( آپ کی )  تربیت کا اثر ہے جس کے باعث ہم سخن گو اور سخن دان ہوگئے۔
مجلس سے (تحسین و آفریں) شور اٹھا اور لڑکے کے والدنے اپنا سر حضرت کے قدموں میں رکھ دیا اور عزیزوں نے آفریں کہی ۔وہ زبان مقال سے کہتے تھے:
قطعہ
زہے مسیح زمانہ کہ مردہ طبعی را
حیات  شعر  بہ بخشید و  ہم رواں گوئی
چو آب  خضر کہ از  ظلمت طبیعت او
روانہ کرد کہ بہر سو رواں رواں گوئی
سبحان اللہ ! مسیح زمانہ کی کیا بات ہےکہ مردہ طبیعت شخص کو حیات شعر اور سلیقۂ روانی بخشا۔آب خضر کی مانند اس کی طبیعت کی ظلمت سے رواں گوئی کا چشمہ ہر جانب رواں کردیا ۔
یہ قطعہ جو حضرت کی مناقب میں ہے اس لڑکے کی تصنیف ہے۔

انگلیوں نے سارا کھانا کھا لیا
محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ آستانۂ روح آباد میں جب قیام پذیر تھے ایک شخص سید علی قلندر نا می جو ازروئے قابلیت علمی ممتاز اورصحبت اولیاء زمانہ سے سرفراز تھا ۔پانچسو قلندروں کے ساتھ مع نشان و نقارہ بڑی شان و شوکت  کے ساتھ آستانہ روح آباد کچھوچھہ شریف  میں حضرت کی شرف ملازمت سے مشرف ہوا مگر اس میں خود پسندی اور غرور حد سے زیادہ بھرا ہوا تھا ۔ بعد ملازمت حضرت کے گفتگوکے درمیان اعتراض حضرت کے خطاب جہانگیری پر کیا کہ یہ خطاب اگر عالم علوی و سفلی اور عالم صوری و معنوی پر ہے  تو ایک شخص کو یہ خطاب جہانگیری پر کیا کہ یہ خطاب ملنا تعجب معلوم ہوتا ہے کیوں کہ سارے اولیاء زمانہ حسب مراتب اپنی اپنی ولایت کے جہانگیر ہیں ۔ آپ کی کیا تخصیص ہے؟
محبوب یزدانی حضرت سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی قد س سرہ نے فرمایا کہ تم نہ تو شیخ الاسلام زمانہ ہو ، نہ قاضی ہو، نہ محتسب۔ اس اسرار درویشی کی تحقیق کرنے سے تم کو کیا فائدہ ۔ فقراء کے راز حال دریافت کرنے سے باز آؤ۔  قلندر نے کہا کہ ہم خداکا لشکر ساتھ لئے ہوئے تحقیق مقامات درویشاں کے لئے سفر کرتے ہیں ۔جب تک آپ کے خطاب جہانگیری کی تحقیق نہ کریں  نہ جائیں گے۔ اگر اس خطاب سےمراد دنیا ہے پس ہر مشائخ ہر مقام کے ہیں جس کی وجہ سے قیام وجود ہے اور جہاں سے مراد اگرولایت معنوی ہے پس بطریق اولیٰ ہر ولی اپنے حد کا محافظ ہے ۔
حضرت نے فرمایا کہ اس فقیر پر نظر کرم بارگاہ عالی حضرت شیخ علاؤ الحق والدین کا ہے۔ انہوں نے مجھ کو بمقتضائے  الالقاب تنزل من السماء جس وقت کہ حضرت کی خانقاہ عالم پناہ کی درودیوار سے آواز"جہانگیر ، جہانگیر" بلند ہوئی  مجھ کو خطاب جہانگیری سے مشرف فرمایا ۔ میں اس قابل نہ تھا ۔
قلند ر نے کہا جس خطاب سے دنیا میں کسی ولی کو مخاطب نہ کیا ہو آپ کے لئےاس خطاب کی کیا خصوصیت ہے ۔اس  توقیر کو جو قلندر کے درمیان آئی اگر پورے طور سے لکھا جائے تو ورق بھر جائیں  اور دلائل علمی جو حضرت محبوب یزدانی نے فرمایاکہ جہانگیر اس کو کہتے ہیں کہ جو جہاں وجود پر تصرف رکھتا ہو اور یہ فرماتے ہو حضرت کے چہرۂ انور پر آثار غضب ظاہر ہوئے فرمایا کہ مراہاتھ ایک حسّ ہے میں اس دوسرے حواس سے کام لے سکتاہوں۔
قلندر نے کہا بغیر آنکھ سے دیکھے ہوئے کیوں کر یقین ہو ۔
حضرت نےایک قاب کھانے سے لبریز منگوائی اور اپنادست ِ مبارک اس میں ڈال دیا ۔ آپ کی انگلیوں نے سارا کھانا کھا لیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ دیگ میں جس قدر کھانا ہے اٹھالاؤ۔ اس کو بھی آپ کی انگلیوں نے کھالیا ۔ اسی طرح دیکھنے اور سننے اور سونگھنے اور کلام کرنے کی قوتیں آپ کی انگلیوں نے ظاہر ہوئیں۔
باوجود ایسی کرامات عظیم دیکھنے کے قلند ر نے کہاکہ ہاں یہ تصرف دیکھا لیکن یہ خطاب بے ادبی سے خالی نہیں ۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ کی انگلی نے آواز دی کہ اے گدھےخطاب جہانگیری پر کیا اعتراض کرتا ہے میں جان گیر ہوں۔
یہ بات جس وقت انگشت مبارک سے نکلی اسی وقت قلند ر کے جسم سے روح پرواز کر گئی اور روسیا  دنیا سے گیا ۔ اس کے قلندران ہمراہی نے اس کا گورکفن کیا ۔ حضرت کے بعض خلفاء شیخ کبیر اور قاضی رفیع الدین اور شیخ رکن الدین شہباز اور شیخ اصیل الدین سفیدباز اور شیخ جمیل الدین جرہ باز ہر ایک شخص نے اس کرامت کو دیکھ کر دانتوں کے نیچے انگلی دبائی اور حضرت محبوب یزدانی کی ثنا ء وصفت کرتے ہوئے قدم مبارک پر سر رکھ دیا ۔ مجلس عالی میں ایک شور مچ گیا کہ اس قسم کی کرامت آج تک کسی ولی سے ظاہر نہ ہوئی اور نہ سنی گئی۔ 

No comments:

Post a Comment