ایک شبہ کا ازالہ
حاجی
الحرمین الشریفین مخدوم الآفاق سید عبدا
لرزاق نورالعین قدس سرہ النورانی 7 ذی
الحجہ 872 ہجری
میں وصال فرمایا ۔ معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ سید عبدالرزاق نورالعین نے اپنی
زندگی ہی میں اپنے صاحبزادگان کو تبرک اور مختلف علاقوں کی ولایت عطافرمادی تھی
اور ان کے لئے مقام تجویز کردیئے تھے تاکہ اپنے اپنے مقام پر رہتے ہوئے تبلیغ دین
کا فریضہ ادا کرسکیں،چنانچہ بڑے صاحبزادے سید شاہ حسن کو اپنا جانشین بنایا اور
ولایت کچھوچھہ عطا کیا دوسرے صاحبزادے سید شاہ حسین کو ولایت جونپور عطا کی تیسرے
صاحبزادے سید شاہ احمد کو ولایت جائس رائے بریلی اور چوتھے صاحبزادے سید شاہ فرید
کو ولایت بارہ بنکی عطا کی اس طرح آپ نے تمام صاحبزادگان کو علاقے عطافرمائے لیکن
اپنا جانشین سید شاہ حسن کو ہی بنایا ۔ہماری اس بات کی حیات محدث اعظم
ہند کے مصنف کی اس تحریر سے ہوتی ہے وہ
لکھتے ہیں :
"حضرت
نورالعین پاک نے ہر وجہہ اور ہر لحاظ سے اکبریت حسن کا خاص خیال کھتے ہوئے
اپناقائم مقام خلیفہ اور سجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر کو بنایا اور خدمت
آستانہ و جاروب کشی بھی ان کے سپرد فرمائی جیساکہ مولانا صالح رودولوی خلیفہ سید
شاہ کرم اللہ اشرف جائسی اپنے رسالہ"خلافت نامہ اشرفیہ" میں تحریر کرتے
ہیں " چنانچہ حضرت نورالعین وقت وفات خدمت جاروب کشی بخلف اکبر سپردند وسید
حسین رابجون پوروسید احمد رابجائس وسید فرید رابردولی فرستادہ وصیت بجاآورند"
اس بیان سے یہ حقیقت رونما ہوگئی کہ حضرت حاجی الحرمین الشریفین شیخ الاسلام
والمسلمین سید عبدا لرزاق نورالعین کی وفات کے بعد درگاہ کچھوچھہ شریف کے تنہا
واحد حقیقی اصلی اور جائزسجادہ نشین سید شاہ حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں تھےسید شاہ
حسن خلف اکبر یا سرکارکلاں کے عہد سجادگی میں ان کے چھوٹے بھا ئی سید شاہ حسین ایک
عرصے کے بعد ولایت جونپور سے درگاہ کچھوچھہ شریف بغرض چلہ کشی پہنچےاور پھر مستقل
سکونت اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایاولایت جونپور چھوڑنے کی وجہ بھی بتائی جاتی
ہے کہ"چوں بست ودومواضع ازبعض معتقدین بفتوح دارندحصہ سید حسین خلف
ثانی نیز درآن قراریافت بدیں وجہہ تعلق سکونت کچھوچھہ اختیارکردند"۔ (خلافت نامہ اشرفیہ)
بہرحال
! سید شاہ حسین ثانی جب کچھوچھہ شریف
پہونچے تو بڑے بھائی کی محبت و شفقت نے انہیں پناہ دی اور مستقل رہنے کی اجازت بھی
ان کی بے نفسی وسیع القلبی اور والہانہ تعلق خاطر کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ
بھی گوارہ نہ کیا کہ خود تمام حقوق رکھنے کے باوجود تنہامراسم عرس اداکریں اور
چھوٹے بھائی کے نام کا چراغ روشن نہ ہو لہذا انہوں نے بکمال اخلاص و محبت اپنے
چھوٹے بھائی سید شاہ حسین کو 27محرم الحرام کی تاریخ برائے ادائیگی مراسم عرس
مرحمت فرمائی اور اپنے لئے 28 محرم الحرام یعنی عرس حضرت مخدوم صاحب کی خاص تاریخ
محفوظ رکھی اس طرح سید شاہ حسین خلف ثانی کو سید شاہ حسن خلف اکبر سرکار کلاں کے بخشندہ یا مرحمت کردہ
حقوق سجادہ نشینی حدوددرگاہ کچھوچھہ شریف ملے ورنہ نورالعین نے انہیں ولایت جونپور
کا سجادہ نشین نامزد فرمایا تھا۔ (حیات
محدث اعظم ہندصفحہ 13)
اس سے
معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام والمسلمین مخدوم الآفاق حاجی الحرمین الشریفین سید
عبدالرزاق نورالعین الحسنی الحسینی قدس سرہ النورانی کے وصال کے بعد ان کے بڑے
صاحبزادے سید شاہ حسن ہی درگاہ کچھوچھہ شریف
کے سجادہ نشین تھے لیکن جب ان کےچھوٹے بھائی سید شاہ حسین ولایت جونپور
چھوڑکر کچھوچھہ شریف آئے تو انہوں نے کمال مہربانی اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے انہیں جگہ دی بلکہ مراسم عرس بھی تقسیم کرلیں چنانچہ 27 محرم الحرام کو سید
شاہ حسین درگاہ شریف میں مراسم عرس ادا کرتے ہیں اور اصل تاریخ یعنی 28 محرم
الحرام کو سید شاہ حسن جو درگاہ شریف کے سجادہ نشین تھے مراسم عرس ادا فرماتے تھے۔
الحمدللہ
عزوجل ! آج بھی مراسم عرس 28 محرم
الحرام کو مخدوم زادہ قائد ملت حضرت علامہ الشاہ سیدمحمدمحمود اشرف اشرفی الجیلانی صاحب
قبلہ مدظلہ العالی والنورانی بمقام خانقاہ اشرفیہ حسنیہ سرکاں کلاں (گراؤنڈ
جامع اشرف ) درگاہ کچھوچھہ شریف میں
ادا فرماتے ہیں ۔
سلسلہ اشرفیہ
حضرت
مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نسبت سے یہ سلسلہ اشرفیہ کہلاتا ہے ۔ حضرت
مخدوم سمنانی نے کیونکہ مناکحت نہیں فرمائی تھی اس لئے کوئی صلبی اولاد
حضرت نے نہیں چھوڑی حضرت شاہ عبد الرزاق نورالعین حضرت کے روحانی فرزند خلیفہ اول
اور پہلے سجادہ نشین تھے اس لئے آپکی اولاد ہی حضرت مخدوم کی اولاد کہلاتی ہے ۔اور
اسی نسبت سے یہ خاندان خاندان اشرفیہ اور اس کے مریدین کا سلسلہ،سلسلہ اشرفیہ
کہلاتا ہے ۔اس سلسلہ اشرفیہ میں وقتاً فوقتاً بڑی علمی و روحانی جلیل القدر ہستیاں
گذری ہیں جن میں حضرت شیخ مبارک بودلے (پیرومرشد
حضرت نظام الدین بندگی میاں امیٹھوی و ملک محمد جائسی ) حضرت مولانا غلام مصطفیٰ اشرفی جیلانی عرف مُلاَّ باسو
جائسی علیہ الرحمہ ، مُلاَّ علی قلی اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ (استاذ مُلاَّنظام الدین فرنگی
محلی ) ، حضرت مولانا سید باقر اشرفی جیلانی ملقب بہ فاضل جائسی علیہ الرحمہ، حضرت
مولانا امام اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ، حضرت مولانا سید امین اشرف
جیلانی جائسی علیہ الرحمہ ، ہم شبیہ غوث الاعظم محبوب ربانی حضرت ابو احمد محمد علی حسین اشرفی
المعروف اعلی حضرت اشرفی میاں رحمۃ اﷲ
علیہ ، عالم ربانی سلطان الواعظین
سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ، حضرت سید محمد المعروف محدث اعظم ہند
علیہ الرحمہ،حضور سرکارکلاں سیدمختار اشرف
اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ، مجاہد دوراں
سید محمد مظفر حسین علیہ الرحمہ، قطب ربانی حضرت ابو مخدوم شاہ سید محمدطاہر
اشرف الاشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ، صوفی ملت سید امیر اشرف اشرفی
الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ،اشرف العلما ء سید محمد حامد اشرف اشرفی علیہ الرحمہ ،حکیم
الملت سید شاہ قطب الدین اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ ، شیخ اعظم سید
شاہ محمد اظہار اشرف اشرفی الجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اور اشرف المشائخ حضرت
ابو محمد شاہ سید محمد اشرف الاشرفی الجیلانی قدس سرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔سلسلہ
اشرفیہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے مریدین و معتقدین اسوقت پوری
دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں علماء و مشائخ بھی کثیر تعداد میں شامل
ہیں۔
مجمع البحرین
سلسلہ عالیہ اشرفیہ میں دو شجرے پڑھے جاتے ہیں
ایک سلسلہ قادریہ اشرفیہ اور دوسرا سلسلہ چشتیہ اشرفیہ
No comments:
Post a Comment